کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 28
میں صرف تیسرا حصہ تھا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر اس باقی دو تہائی کی ادائیگی عائد کردی جن کا اب اس لونڈی سے صحبت کرنا(اُمّ ولد بن جانے کی بنا پر ملنے والے آزادی کی بنا پر) ممنوع ہوگیا۔اور اسے بچے کی دو تہائی دیت قرار دینا وہم ہے یا یہاں لونڈی کی قیمت کو دیت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ اسی کی ادائیگی کی جانا تھی۔ ایسی صورت میں کوئی تضاد باقی نہ رہا۔“
احادیث میں زیادہ تر واقعات لونڈیوں کے آئے ہیں ، اس سے یہ مطلب سمجھنا درست نہیں کہ یہ احکام لونڈیوں سے ہی مخصوص ہیں ۔ دراصل ایسی کوتاہی زیادہ تر انسان لونڈیوں کے بارے میں ہی کرتاہے، جہاں تک آزاد عورت کا معاملہ ہے تو مکمل حقوق رکھنے کی وجہ سے اور اس سے عزت وشرف کو زیادہ منسوب سمجھنے کی وجہ سے ایسی بے احتیاطی وہاں کم ہوتی ہے۔
علم القيافۃ فقہا کی نظر میں
قیافہ کے علم کے دو پہلو ہیں : ایک تو کھوجی جو قدموں کے نشانات سے کسی وقوعہ کا کھوج لگاتا ہے، اسے قيافة الأثر کہتے ہیں ۔ دوسرا قيافة البشرجس کا مقصد مشابہتوں کی بنا پر آپس میں نسبی تعلقات کو جوڑنا ہوتا ہے۔
جمہور فقہا( مالکی، شافعی اور حنابلہ ) کے نزدیک اختلاف کے وقت قیافہ کے ذریعے نسب کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ان کی دلیل حدیث ِقیافہ(اسامہ رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ کی مشابہت) اور حضرت اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکالمہ ہے۔ شافعیہ اور حنابلہ کے خیال میں قیافہ شناس کے ذریعے باندی اور آزاد عورت دونوں کے بچوں کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے جبکہ مالکیہ کے نزدیک اس سے صرف باندی کے متعلق فیصلہ کیا جانا چاہئے البتہ اگر کبھی بچہ بوقت ولادت گم جائے یااشتباہ واقع ہوجائے تو ایسی صورت میں قیافہ شناس سے آزاد عورت کے بچے کے فیصلے کاکام لیا جاسکتا ہے۔
احناف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قیافہ بھی کہانت کی طرح مکروہ علم ہے، او رشریعت نے نسب کو ثابت کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ قائم کیا ہے اور وہ ہے جائز بستر، اور جس آدمی کواپنے بچے کے بارے میں شبہ ہوتو اسے حدیث لعان کی رو سے لعان کا حکم ہے نہ کہ قیافہ شناس سے فیصلہ کرانے کا۔علاوہ ازیں مجرد شباہت ایک ناقابل اعتبار امر ہے، کبھی بچہ اپنے کسی دور کے رشتہ دار سے بھی مشابہ ہوسکتا ہے، جیساکہ ایک آدمی کے ہاں سیاہ رنگ کا بچہ پیدا ہونے کا واقعہ