کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 27
سندی میں اس کا رجحان ظاہر کیا گیا ہے۔ جہاں تک قرعہ کے ذریعے والد قرار دیے گئے شخص پر دیت کے دوتہائی عائد کرنے کا تعلق ہے تو اس کی توجیہ کے بارے میں مسند حمیدی میں یہ الفاظ ملتے ہیں : فقال علي لاثنين منهم أتُطِيبان به نفسًا لصاحبكما قالا: لا،ثم قال للآخَرَين أتطيبان به نفسا لصاحبكما قالا: لا، فقال علي: أنتم شركاء متشاكسون إننى مُقرع بينكم فأيكم أصابته القرعة ألزمتُه الولد وأغرمتُه ثُلَثَي قيمة الجارية لصاحبه (ج2/ص345، رقم: 785 ) ”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باری باری دو سے پوچھا: کیاتم دو اپنے ساتھی کے لئے اس سے بخوشی دستبردار ہوتے ہو۔ انہوں نے انکار کیا۔ پھر آپ نے باقی دو سے یہی پوچھا، اُنہوں نے بھی نفی میں جواب دیاتو آپ نے کہا کہ اب تم سب برابر کے شریک ہو۔میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتاہوں ، جس کے نام قرعہ نکل آیا ، اس کو یہ بچہ میں حوالے کردوں گا اور اس کو کہوں گا کہ وہ لونڈی کی دو تہائی قیمت دوسرے ساتھیوں کو ادا کرے۔“ حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ لما لحق به صارت أمّ ولد وله فيها ثلثها فغرمه قيمة ثلثيها الذين أفسدهما على الشريكين بالاستيلاد فلعل هذا هو المحفوظ،وذِكرُ ثلثي دية الولد وهم أو يكون عَبَّر عن قيمة الجارية بالدية لأنها هي التي توٴدىٰ بها فلا يكون بينهما تناقض ”جب وہ بچہ اس سے منسوب ہوگیا تو گویا یہ لونڈی اس کی اُم ولد بن گئی جبکہ اس کا اس لونڈی