کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 26
قرعہ اندازی: جب ایک عورت سے دو مردوں کا تعلق اس انداز سے قائم ہو کہ یہ تعلق اپنی اصل کے اعتبار سے ناجائز نہ ہو تو اس صورت میں بعض اوقات قرعہ اندازی سے بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دورِ نبوی میں یمن میں قاضی بناکر بھیجا گیا تو وہاں آپ نے ایسے ہی ایک مسئلہ میں فیصلہ فرمایا اور جب یہ فیصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تو آ پ نے اس پر تبسم فرمایا، یہ واقعہ سنن نسائی اور سنن ابودادو میں موجود ہے۔ زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : أتي علي بثلاثة وهو باليمن وقعوا على امرأة في طهر واحد فسأل اثنين أتقران لهذا بالولد؟ قالا: لا حتى سألهم جميعًا فجعل كلما سأل اثنين قالا: لا فأقرع بينهم وألحق الولد بالذي صارت عليه القرعة وجعل عليه ثُلثَي الدية قال فذُكر ذلك للنبي صلی اللہ علیہ وسلم فضحك حتى بدت نواجذه (صحیح ابو داود: 1987) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں تین آدمی لائے گئے جنہوں نے ایک لونڈی سے ایک ہی طہر میں ہم بستری کی تھی۔ آپ نے دو آدمیوں سے باری باری پوچھا : کیا تم اس تیسرے کو یہ بچہ دینے کا اقرار کرتے ہو، ان دونوں نے کہا : نہیں ۔ حتی کہ جب آپ تمام سے پوچھ بیٹھے اور ہر ایک نے نفی میں جوا ب دیا تو آپ نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اور بچے کو اس سے منسوب کردیا جس کے نام قرعہ نکلا تھا۔اور اس کو پابند کیا کہ تم دوتہائی دیت ادا کرو۔ جب یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو آپ اس قدر ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نمایاں ہوگئیں ۔“ علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ سنن ابو داود پر اپنی ’تعليقات‘ میں اس حدیث پر لکھتے ہیں : ”حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں مسئلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس بچے کے بارے میں فیصلہ نہ ہو تو اس کو قرعہ کے ذریعے کسی ایک سے الحاق کردیا جائے۔ یہ اسحق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا پہلا قول ہے۔ جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے بجائے حديث القيافة ٭ کی بنا پر قیافہ شناس سے کام لینا زیادہ بہتر ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس بارے میں قرعہ یا قیافہ دونوں کے بارے میں کچھ بھی منقول نہیں ہے۔“ اس مسئلہ کو قیافہ کی بجائے قرعہ اندازی سے حل کرنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قیافہ شناس وہاں موجود نہ ہوں یا قیافہ شناس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو، جیسا کہ نسائی پر حاشیہ ٭ حدیث ِقیافہ زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید کے بارے میں ہے۔امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کا رنگ تارکول کی طرح سیاہ تھا اور ان کے والد زید کا رنگ روئی کی طرف سفید۔اور لوگ ان کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کرتے تھے۔ ایک روز نبی کریمؐ گھر میں آئے اور آپ کے چہرے پر مسرت نمایاں تھی، آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ((ألم تر أن مجززا المدلجي رأی زیدا وأسامۃ قد غطیا رء وسہما بقطیفۃ وبدت أقدامہما فقال إن ہذہ الأقدام بعضہا من بعض)) (صحیح ابو داود: ۱۹۸۴ ) ’’کیا تم نے (قیافہ دان) مجزز مدلجی کی بات نہیں سنی، اس نے زید اور اسامہ کو لیٹے دیکھا، دونوں نے سر پر چادر اوڑھی ہوئی تھی اور پاؤں نظر آرہے تھے۔ تو کہنے لگا کہ یہ پاؤں آپس میں ایک دوسرے سے ہیں ۔‘‘