کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 25
کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ او رقیافہ شناس کو درّہ مارنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک بچہ بیک وقت دو آدمیوں کاکیونکر ہوسکتا ہے۔ پھر عورت کے خون آنے کا دعویٰ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے حیض کا باقاعدہ خون آتا بلکہ اس سے تھوڑا بہت خون مرا دہوسکتا ہے۔گویا ایک حیض میں ہی دو مرد اس عورت سے زنا کاری کیا کرتے۔ اور بچے کو اپنی مرضی سے منسوب ہونے کا اختیار دینے کی و جہ یہ ہوسکتی ہے کہ قیافہ شناس سے فیصلہ ممکن نہ ہوا اور بچہ سن رُشد کو پہنچ چکا تھا، اس لئے اس سے اس کا فیصلہ کرا لیا گیا۔ (3) بعض اوقات اس مسئلہ میں بڑی عجیب عجیب صورتیں سامنے آتی ہیں ، جیسا کہ دو آدمی ایک عورت میں جائز نکاح کے ذریعے شریک ہوجاتے ہیں ، لیکن واقعہ میں ایک ایسا یقینی امر مل جاتا ہے جو بچے کے نسب کا فیصلہ کرد یتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ فیصلہ معتبر سمجھا جائے گا۔ چنانچہ موطا ٴامام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا، چنانچہ اس نے چارماہ دس دن کی عدت گزاری اور اس کے بعد ایک مرد سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے پورے 4 ماہ 15 دن بعد اس عورت نے ایک صحت مندبچے کو جنم دیا۔ یہ آدمی اپنا معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر سوچ میں پڑ گئے او ربڑی بوڑھیوں کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ایک بوڑھی عورت بولی کہ اس کی وجہ میں بتاتی ہوں ، ہوا یوں کہ جب اس کا پہلا شوہر فوت ہوا تو اس سے یہ حاملہ تھی، یہ اسی کا حمل ہے جو سوکھ گیا تھا، بعد میں اسی نطفہ میں زندگی کے آثار پیدا ہو ے اور نو ماہ پورے ہونے پر وضع حمل ہوگیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی بات کی تصدیق کی اور اس شوہر بیو ی میں جدائی کروا کے اس بچے کو فوت شدہ شوہر سے منسوب کردیا۔ (موطأ: 1450) ٭ بعض صورتوں میں ایسے بچے کو بعد میں ہم بستری کرنے والے کو بھی دیا گیا ہے۔ نسب کے بارے میں 10 سے زائد واقعات أقضية الخلفاء الراشدين میں ذکر کئے گئے ہیں ۔ (1/298 تا 313) ان میں سے اکثر واقعات کا تعلق دورِ جاہلیت کے تعلقاتِ مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں سے ہے۔ البتہ ان سے قیافہ شناسی سے مدد لینے کا اُصول ضرور ثابت ہوتا ہے۔ تفصیل کے خواہش مند محولہ کتاب کی طرف رجوع فرمائیں ۔