کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 24
ہے۔جہاں تک چوتھی صورت ہے تو اسلام کی رو سے کسی کوتاہی یا غلطی کے موقعہ پر قیافہ شناسی کی بنا پر کسی ایک سے نسب کو ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ مرد وعورت کا آپس میں جائز نکاح کا تعلق قائم ہوچکا ہو، گویا نسب کی اصل اور واحد بنیاد صرف جائز نکاح ہے اور قیافہ یا ڈی این اے وغیرہ اس میں شبہ کی صورت میں صرف ترجیح کا کردار ادا کریں گے۔ قیافہ او رڈی این اے میں فرق یہ ہے کہ قیافہ میں انسانی تجربہ اور عام مشاہدہ کے ذریعے اعضاکی مشابہت کی بنا پر بچے کی والد سے مشابہت تلاش کی جاتی ہے جبکہ ڈی این اے میں سائنسی تجزیات کی مدد سے نسبتاً زیادہ یقینی طورپر اور مزید باریک بینی سے جینیاتی معلومات کی بنا سے اس امر کا تعین کیا جاتا ہے۔اس لحاظ سے ڈی این اے کا تجزیہ اگر دورانِ عمل کسی غلطی سے محفوظ ہو تو اس پر قیافہ کی نسبت زیادہ انحصار کیا جاسکتا ہے۔
(2) اسی نوعیت کا ایک واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے دور میں پیش آیا۔ آپ کے پاس دو آدمی آئے اور دونوں ایک بچے کے بارے میں اپنا اپنا دعویٰ کررہے تھے۔ توحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قیافہ شناس کو طلب کیا ، دونوں کو دیکھ کر وہ کہنے لگا کہ یہ دونوں اس بچہ میں شریک ہیں ۔ (اس عجیب دعویٰ پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس قیافہ شناس کو درّہ سے مارا او راس عورت کو بھی طلب کرلیا اور اس سے کہا: سچ سچ بتاؤ، تو وہ کہنے لگی :
”كان هذا لأحد الرجلين يأتيني وهي في إبل لأهلها فلا يفارقها حتى يظن وتظن أنه قد استمر بها حبل ثم انصرف عنها فأهريقت عليه دماء ثم خلف عليها هذا تعني الآخر فلا أدري من أيهما هو قال فكبر القائف فقال عمر للغلام وال أيّهما شئت (موطأ مالك:1451)
”ان دونوں میں یہ آدمی میرے پاس آیا کرتا تھا اور میں اپنے اونٹوں کو چرا رہی ہوتی۔ یہ آدمی ا س وقت تک مجھ سے جدا نہ ہوتا جب تک اسے اور مجھے یقین نہ ہوجاتا کہ حمل ٹھہر گیا ہے ۔ پھر یہ آدمی چلا جاتا، اس کے بعد مجھے خون آجاتا۔ پھر دوسرا آدمی اس کے بعد آجایا کرتا (اور ایسا ہی کرتا) میں نہیں جانتی کہ یہ دونوں میں سے کس کا ہے؟ راوی کہتا ہے کہ قیافہ شناس نے ’اللّٰھ اکبر‘ کہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لڑکے کو کہا : جس سے تم چاہو، اپنے آپ کو منسوب کرلو۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایسے واقعہ میں قیافہ شناس کو بلانے سے پتہ چلتاہے کہ ایسا مسئلہ قیافہ شناس