کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 23
اسلام میں اس کا فیصلہ پہلے سے کردیا گیاہے۔ یہ سوال وہاں پیدا ہی اس لئے ہوا کیونکہ وہاں زنا کی تعریف کو بدل کر بغیر نکاح کے جنسی تعلقات کو گوارا کر لیا گیا ہے۔
(1) عروہ رضی اللہ عنہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اُنہیں بتایا کہ
”جاہلیت میں نکاح چار طرح سے ہوتے تھے :
(1) ایک تو نکاح کی وہ صورت جو آ ج کل مروّج ہے کہ ایک شخص دوسرے کو اپنی بیٹی یا زیر ولایت لڑکی سے نکاح کی پیش کش کرتا اور حق مہر کے ساتھ اس کا نکاح قرار پاجاتا۔
(2) نکاح استبضاع: جس میں ایک شخص اپنی بیوی کو حیض سے فارغ ہونے کے بعد کسی عالی نسب یا معزز آدمی کے پاس ہم بستری کے لئے بھیج دیتا۔ حمل قرار پانے تک اس کا حقیقی شوہر اپنی بیوی سے ہم بستری سے اجتناب کرتا۔ یہ کام اس لئے کیا جاتا تاکہ بچہ اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل اورنجیب صفت ہو۔
(3) نکاح کی تیسری صورت یہ ہواکرتی کہ ایک عورت سے 10 کے قریب لوگ ہم بستری کیا کرتے۔ حمل قرار پانے کے بعد وہ عورت سب کو بلاتی اور کوئی انکار کی جرات نہ پاتا۔ وہ عورت اس بچے کو جس کی طرف منسوب قرار دیتی، اس شخص کے لئے اس کو ماننے کے سوا چارہ نہ ہوتا،پھر وہی اس بچے کا نام وغیرہ رکھتا۔
(4) فاحشہ عورتوں کے پاس بے شمار لوگ زناکاری کے لئے آتے رہتے، ایسی عورتوں کے دروازوں پر مخصوص جھنڈے لگے ہوتے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو قیافہ شناس کو بلایا جاتا اور وہ اس بچہ کو جس سے منسوب کرتا، اسی کی طرف اس کی نسبت سمجھی جاتی اور معاشرے میں اسی کی ولدیت سے وہ معروف ہوجاتا... جب اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو آپ نے تمام نکاحوں کو باطل قرار دیتے ہوئے صرف نکاح کی پہلی صورت باقی رکھی۔“ (بخاری: 5127)
اس حدیث میں نکاح کی چاروں صورتوں کے ساتھ جاہلیت میں نسب کے تعین کی صورتوں کا بھی تذکرھ کیا گیا ہے، ان چار صورتوں میں جہاں تک نسب کا تعلق ہے تو اسلام میں اس کا ثبوت صرف پہلی صورت کے ساتھ خاص ہے۔دوسری صورت میں زنا ہونے کی وجہ سے چاہے امر واقعہ میں اس کا باپ زانی شخص ہے لیکن اس بچے کو قانونی طورپر اس سے منسوب نہیں کیا جائے گا جیساکہ اس کے دلائل گزر چکے ہیں ۔
تیسری صورت میں بھی عورت کی طرف سے نسب کے تعین کا اسلام میں کوئی اعتبار نہیں