کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 22
سے بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب دوافراد ایک عورت میں اس طرح شریک ہوجائیں کہ دونوں کا نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے درست ہو۔ ایسا بظاہر ممکن نہیں کہ ایک عورت بیک وقت دو مردوں کے نکاح میں ہو لیکن غلطی یا کوتاہی کی بنا پر ایسا ہوسکتا ہے۔ مثلاً کوئی عورت تین ماہواریوں کی عدت پوری کیے بغیر طلاق ملنے کے فوراً بعد دوسرے مرد سے نکاح کرلیتی ہے، تو ایسی صورت میں اس کا آگے نکاح کرنا تو باعث ِگناہ ہوگا لیکن اس کے نکاح کے بعد کے تعلقات کو زنا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یا کسی عورت کے رحم میں کوتاہی کی وجہ سے دو نطفے جمع ہوگئے ہیں ، تب یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی لونڈی سے تعلق قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک ماہواری انتظار کیا جائے تاکہ اس کے رحم کا خالی ہونا (استبراء رحم ) یقینی ہوجائے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس امر کا دھیان نہ کرے توایسی صورت میں اس احتیاط کو ملحوظ نہ رکھنے کی سزا تو اُسے دی جائے گی، البتہ اس کا ہم بستری کرنا ’زنا‘ شمار نہیں ہوگا۔ چونکہ ان تمام صورتوں میں ان کا نکاح یا لونڈی سے تعلق درست ہے، اب شبہ پڑجانے کے وقت دو مردوں میں سے بچے کا فیصلہ کس کے حق میں کیا جائے؟ قیافہ یا دیگر قرائن سے اس امر کو ترجیح دی جاسکتی ہی۔ گویا قیافہ یا کوئی اور یقینی امر بھی، اکیلا نسب کو ثابت کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتا، بلکہ اس کے ذریعے جائز نکاح کے بعد صرف ترجیح کا فائدہ لیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام جدید سائنسی تحقیق ات کو قبول نہیں کرتا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام غلط تعلق کے نتیجے میں ہونے والے فعل کو شرعی حیثیت نہیں دیتا اور زانی کو تحفظ دینے کی بجائے اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ باوجود اس امر کے، کہ بچے کا اپنے باپ سے تعلق مشاہدہ یا دیگر یقینی دلائل سے بھی حاصل ہوچکا ہو یا اعترا ف کے نتیجے میں انہیں سزا بھی مل چکی ہو۔گویا اسلام میں جینیاتی حقوق نکاح کے بعد ہی معتبر ہوتے ہیں ،اُس سے پہلے نہیں ۔ یہاں تو یہ کہنا چاہئے کہ اسلام مشاہدہ او ر زانی کے اعتراف کو بھی کوئی حیثیت نہیں دیتا کجا یہ کہ وہ ڈی این اے ہوکیونکہ اسلام کے پیش نظر اس فعل کی جائز اور ناجائز حیثیت کے مابین فرق کرنا ہے۔ یورپ میں جو بحث ان دنوں بڑی گرم ہے کہ انسان کے قانونی حقوق برتر ہیں یا جینیاتی تو