کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 20
کے الفاظ یہ ہیں : فكان بعد ينسب إلى اُمه (صحیح بخاری: 4745) ”بعد میں یہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔“ ٭ مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت میں اس بچے کے بارے میں ذکر ہے کہ قال عكرمة فكان بعد ذلك أميرا علىٰ مصر وكان يدعى لأمه وما يُدعى إلى أبيه (مسند احمد: 2132) ”عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ بچہ بعد میں مصر کا گورنر بنا، اور اس کو اس کی ماں کی طرف ہی منسوب کیا جاتا تھا،نہ کہ اس مرد کی طرف جس کے ساتھ زنا کرنے کا اس کی ماں پر الزام لگایا گیا تھا۔“ ٭ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4748میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ ماں کو دینے کا فیصلہ فرمایا۔ ایک او رحدیث میں یہ تذکرہ ہے کہ لعان کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کی وراثت اس کی ماں کو ملتی اور وہ بھی اپنی ماں کی وراثت سے ہی حصہ ٭پاتا۔ (بخاری: 4746) (4) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : قضٰى رسول اللّٰه فى ابن الملاعنة أن لا يدعى لأب ومن رماها أو رمى ولدها فإنه يجلد الحد ( مسند احمد:2200) ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے خاوند، بیوی کے بچے کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ اسے باپ (ماں کے شوہر) سے منسوب نہ کیا جائے اور جو اس عورت پر (زنا کا) یا اس کے بچے پر حرامی ہونے کا الزام لگائے گا تو اس پر حد (تہمت) جاری ہوگی۔ “ (5) الولد للفراش سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بچہ ماں کو دیا جائے گا۔لیکن جب اس میں ’فراش‘ سے مراد صاحب ِفراش (مرد) کی بجائے زانیہ عورت کو لیا جائے جیساکہ بعض فقہا نے ’فراش‘ سے عورت کو بھی مراد لیا ہے اوران کی دلیل قرآن کی آیت ہے ﴿وَفُرُشٍ مَّرْفُوْعَةٍ﴾ (الواقعہ:34) جس کی ایک تفسیر ’جنتی عورتوں ‘ سے بھی کی گئی ہے۔ (بدائع الصنائع : 6/243) ٭ شریعت ِاسلامیہ میں ماں کے اپنی اولاد سے تعلق کے بارے میں نطفے کے تعلق کی بجائے حمل اور وضع حمل کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے ﴿ إِنْ أُمَّہٰتُہُمْ اِلاَّ الّٰئِي ولَدْنَہُمْ﴾ اور﴿ حَمَلَتْہٗ أُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہٗ کُرْھًا﴾ یہی وجہ ہے کہ زنا کی صورت میں مرد کا تعلق تو اپنی اولاد سے منقطع ہوتا ہے، البتہ عورت کا اپنی اولاد سے تعلق برقرار رہتا ہے۔