کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 19
کے لئے ضروری ہے کہ زنا کے فعل کو مذموم ترین اور سنگین جرم قرار دیا جائے اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج اور اثرات کوغیر معتبر سمجھا جائے ۔آج لادین معاشروں میں حرامی بچوں کی بڑھتی تعداد اسی الہامی حکم کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ شرعی طورپر یہ نسب کس کی طرف منتقل ہوگا، اس سلسلے میں دورِ نبوی کے واقعات یہ ہیں : (1) اوپر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان ذکر کیا گیا ہے جس کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں : وهو ولد زنا لأهل أمّه من كانوا حرة أو أمة (صحیح ابو داؤد: 1983) ”اور یہ ولد زنا ماں کے خاندان کو دیا جائے گا، چاہے وہ ماں آزاد ہو یا باندی“ (2) اگر ماں شادی شدہ ہو تو اس صورت میں رجم کی سزا پاکر موت سے دوچار ہوگی۔ ایسی صورت میں یہ بچہ ماں کے خاندان کو یا عامة المسلمین کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں حضرت غامدیہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ کتب ِحدیث میں ملتاہے، جب اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے آپ کو باربارسزائے رجم کے لئے پیش کیا ۔ احادیث میں یہ الفاظ قابل توجہ ہیں : (حتى تضعي ما في بطنك) قال فكفلها رجل من الأنصار حتى وضعت ... فقام رجل من الأنصار فقال: إليّ رضاعه يا نبي اللّٰه قال فرجمها ) ”(اس وقت تک انتظار کر) جب تک کہ تیرا بچہ پیدا نہ ہو جائے، تو ایک انصاری آدمی نے غامدیہ کی وضع حمل تک کفالت کی... آخر حدیث میں ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ !اس کی رضاعت میرے ذمے ہے ، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رجم کردیا۔“ (صحیح مسلم: 1695) اور اس سے اگلی روایت میں یہ الفاظ ہیں : أتته بالصبي في يده كسرة خبز...فدفع الصبي إلى رجل من المسلمين ”غامدیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے کو اس حالت میں لائی کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہ بچہ ایک مسلمان کو دے دیا۔“ ٭ البتہ لعان کرنے والی عورت کے بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہی کی جائے گی، جیساکہ درج ذیل احادیث میں ہے : (3) لعان کے ایک واقعہ میں ایک عورت پر اس کے شوہر عویمرعجلانی رضی اللہ عنہ نے ایک مرد سے ملوث ہونے کا الزام لگا یا، عورت نے قسمیں کھالیں اور اس کی عویمر سے جدائی ہوگئی۔ حدیث