کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 18
ولد الزنا کس کو دیا جائے؟
مذکورہ بالاتفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ ولد الزنا ، زانی سے منسوب نہیں ہوگا۔ البتہ بچہ کے قصور وار نہ ہونے کی و جہ سے اس کو ماں کی حضانت (تربیت وپرورش) کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ البتہ جب شادی شدہ زانیہ عورت کو رجم کی سزا دی جائے تو ایسی صورت میں یہ بچہ ماں کے ورثا یا عامة المسلمین کے حوالے بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ ماں کے اقارب ہی اس کو تربیت کے لئے ضروری پیار دے سکتے ہیں ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولد الزنا کا کیا قصور ہے کہ اس کو باپ کے نسب سے محروم رکھا جارہا ہے؟
جہاں تک شریعت میں اس بچے کے اپنے افعال کی حیثیت کا تعلق ہے تو ولد الزنا ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، چنانچہ ایسا بچہ نماز میں امامت٭ کے علاوہ مسلمانوں کا حاکم بھی بن سکتاہے، لیکن نسب میں اگر اس بچے کو جائزبچوں جیسا ہی مقام دیا جائے تو اس سے ان جائز بچوں کا حق متاثر ہوتا ہے اور وہ انہی کی طرح اپنے باپ کے حقوق٭ استعمال کرتا ہے۔ ایسے ہی جب بچے اپنے والدین سے اچھائیاں اور خوبیاں حاصل کرتے ہیں ، ویسے ہی ان پر برائیوں کا بھی کچھ نہ کچھ اثر واقع ہوتا ہے، کیونکہ اللہ نے یہ سلسلہ ہی اس طرح رکھا ہے۔ جدید سائنس کی رو سے مختلف امراض اور مختلف صلاحیتیں موروثی طور پر بچے کو حاصل ہوتی ہیں ۔ اگر بادشاہ کا بیٹا شہزادہ ہوتا ہے تو مزدور کابیٹا بھی اس وقت تک اپنے باپ کی سی حیثیت رکھتا ہے، جب تک اس کی ذاتی حیثیت نمایاں ہونے کا وقت نہ آجائے۔
یوں بھی اگر ولد الزنا کو جائز بچے جیسے ہی تمام حقوق دے دیے جائیں تو اس سے معاشرے میں زنا کی حوصلہ افزائی ہو گی، گویا ناجائز فعل کی بنا پر اس کو حاصل ہونے والا بچہ اس کے برے کام کا انعام تصور ہوگا، اس لئے معاشرے میں پاکیزگی اورعفت وعصمت کے تحفظ
٭ موطا امام مالک میں ایک واقعہ توآتا ہے جس میں عمر رحمۃ اللہ علیہ بن عبد العزیز نے ایک ایسے شخص کو عقیق مقام پر امامت سے روک دیا تھا جس کے باپ کا علم نہ تھا ۔( رقم: ۳۰۵) لیکن آپ کا ایسا کرنا کراہت کی بنا پر ہوسکتا ہے، راجح قول کے مطابق ایسے شخص کی امامت درست ہے۔
٭ نسب کے ساتھ حاصل ہونے والے حقوق یہ ہیں :کفالت، وراثت اور رشتہ داری وغیرہ