کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 17
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ کا حکم اُترا نہ ہوتا تومیرے او راس کے مابین ایک فیصلہ ہوتا۔“ یعنی میں اس کو سزا سے دوچار کرتا۔
آگے آرہا ہے کہ لعان کی صورت میں بچہ ماں سے منسو ب ہوتا ہے۔چنانچہ ظاہر ہے کہ یہ بچہ شریک بن سحما سے مشابہت کے باوجود اپنی ماں سے ہی منسوب کیا گیا اور مشابہت کی بنا پر اس کو زانی کے حوالہ نہ کیا گیا۔
٭ بلکہ شریعت میں تو یہاں تک احتیاط موجود ہے کہ جہاں نکاح موجود ہو، وہاں صرف مشابہت کی بنا پر شکوک وشبہات اور وسوسوں کو راہ دینا مناسب نہیں ۔ جیساکہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ شکایت کی کہ میرے ہاں سیاہ رنگ کا بچہ پیدا ہوا ہے۔تو آپ نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس اونٹ ہیں ، ان کا رنگ کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا :سرخ ۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس میں بھورے رنگ کا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا : ہاں ، آپ نے پوچھا : وہ کہاں سے آگیا ؟ اس نے کہا : شاید کہ اس نے کسی پچھلے اونٹ کی خصوصیت کھینچ لی ہو۔ تو آپ نے فرمایا : (فلعل ابنك هذا نزعه) (صحیح بخاری: 5305)
”شاید کہ تمہارے اس بیٹے نے (بھی تمہارے بڑوں میں کسی کی خصوصیت ) کھینچ لی ہو۔“
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بنا پر اس کو شک وشبہ میں پڑنے سے روک دیا اور اس کو اجازت نہ دی کہ اس بنا پر وہ اپنے بیٹے سے انکار کرے۔ (مسند احمد: 7433)
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو ایک سیاہ رنگت کے آدمی نے اپنی بیوی کی شکایت کی کہ اس نے سفید رنگت کا بیٹا کیونکر جنا ہے؟ جبکہ اس عورت نے اس الزام کو قبول کرنے سے کلی انکار کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پریشانی کے عالم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے فرمایا : جو میں پوچھوں سچ سچ بتانا، کیا تم نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے مباشرت کی تھی؟ اس نے اقرار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
اللّٰه أكبر إن النطفة إذا خلطت بالدم فخلق اللّٰه عزوجل منها خلقا كان أحمر، فلا تنكر ولدك فأنت جنيت على نفسك (الطرق الحكمية: 69)
”اللہ کی شان! جب نطفہ حیض کے خون میں مل جاتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ نے ایسا پیدا کیا جو سرخ ہے۔ اپنے بیٹے سے انکار مت کرو، تم نے اپنے آپ پر خود زیادتی کی ہے۔“