کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 16
(أما الولد فإذا سبق ماء الرجل ماء المرأة نزع الولد وإذا سبق ماء المرأة ماء الرجل نزعت الولد ) (صحیح بخاری: 3938)
”جہاں تک بچے کے بارے میں سوال کا تعلق ہے تو جب آدمی کا پانی عورت پر سبقت کرجاتا ہے، بچے کی اُس سے مشابہت ہو جاتی ہے او رجب عورت کا پانی سبقت کر جائے تو بچہ اُس کے مشابہ پیدا ہوتا ہے۔ “ یہ جوابات سن کر عبد اللہ بن سلام اسلام لے آئے۔
اس موضوع پر احادیث میں بکثرت تفصیلات ملتی ہیں ، جس میں ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر مرد کے پانی کا غلبہ ہوجائے تو بچہ کی مشابہت اپنے چچاؤں سے ہوتی ہے ، بصورتِ دیگر اپنے ماموں وغیرہ سے۔ (صحیح مسلم: 314)
ان احادیث سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللّٰھ تعالیٰ نے اس امر کا علم دیا تھا کہ بچے کی والدین سے مشابہت کی حقیقی اور ٹھوس طبعی بنیادیں موجود ہیں لیکن اس امر کا تعین ہوجانے کے باوجود آپ نے مختلف واقعات میں اس مشابہت کی بنیاد پر نسب کو ثابت نہیں کیا بلکہ اس طبعی امر پر شرعی حیثیت کو ہی غالب قرار دیا ، قابل ذکر واقعات یہ ہیں :
(1) اوپر گزرنے والے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ کے واقعہ میں آپ نے عتبہ بن ابی وقاص سے بچہ کی واضح مشابہت محسوس کرلینے کے باوجود اس کو زمعہ کا ہی بیٹا قرار دیا۔ یہ مشابہت اس قدر واضح تھی کہ آپ نے سودہ رضی اللہ عنہا کو اپنے قانونی بھائی سے پردہ کرنے کا بھی حکم دیا۔
(2) لعان کا ایک واقعہ دورِ نبوی میں پیش آیا جس میں ہلال بن اُمیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحما سے ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ عورت کے اعتراف نہ کرنے کی بنا پر لعان ہوا اور لعان کے دوران وہ عورت آخری قسمیں اور لعنت بھیجتے ہوئے قدرے جھجکی بھی لیکن اس نے کہا کہ میں اپنے قبیلہ کو رسوا نہ کروں گی او رآخر ی قسمیں بھی اُٹھا لیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أبصروها فإن جاء ت به أكحل العينين سابغ الإليتين خدلج الساقين فهو لشريك بن سحماء)فجاء ت به كذلك فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : (لولا ما مضىٰ من كتاب اللّٰه لكان لي ولها شأن) (صحیح بخاری : 4747)
”ذرا اس عورت کے بچے کا دھیان رکھنا، اگر اس عورت کا بچہ سرمگیں آنکھوں والا، موٹی سرین والا اور بھاری بھر کم پنڈلیوں والا ہو تو وہ شریک بن سحما کا ہوگا۔چنانچہ بچہ ایسا ہی پیدا ہوا