کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 15
ذهب الفقهاء إلى أنه لا يثبت النسب بالزنا مطلقًا (40/237) ”فقہاکا اس امر پر اتفاق ہے کہ زنا سے نسب مطلقاً ثابت نہیں ہوتا۔“ شریعت نے نکاح کے بغیر صرف نطفہ کی بنا پر نسب کا اعتبار نہیں کیا !! واضح رہنا چاہئے کہ اسلام نے چودہ سو برس قبل اس بات کی شہادت دے دی تھی کہ بچے کی ولادت میں ماں اور باپ دونوں کے جرثوموں کا کردار ہوتا ہے۔ جدید سائنس بڑ ی تحقیق کے بعد کچھ عرصہ قبل اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ دونوں کے جرثوموں کے اشتراک سے زایگوٹ یعنی ’نطفہ امشاج‘ تیار ہوتا ہے۔ اور جس کو برتری/سبقت حاصل ہوجائے،بچے میں زیادہ مشابہت بھی اسی کی پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمہ کتب ِحدیث میں موجود ہے: أنها سألت نبي اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم عن المرأة ترىٰ في منامها ما يرىٰ الرجل فقال رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم (إذا رأت ذلك المرأة فلتغتسل) فقالت أم سليم: فاستحييتُ من ذلك، قالت: وهل يكون هذا؟ فقال نبي اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم : (نعم! فمن أين يكون الشبه،إن ماء الرجل غليظ أبيض وماء المرأة رقيق أصفر فمن أيهما علا أو سبق يكون منه الشبه) (صحیح مسلم: 311) ”اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے اس خوا ب کے بارے میں دریافت کیا جو وہ مرد کی طرح دیکھتی ہے (یعنی احتلام) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عورت بھی ایسا خواب دیکھے تو غسل کرے۔ اُمّ سلیم کہتی ہیں کہ مجھے اس پر بڑی شرم آئی اور میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی! کیا عورتوں میں بھی ایسا ہوتا ہے (یعنی احتلام) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: بالکل ورنہ (عورت سے بچے کی) مشابہت کا کیا مطلب؟آدمی کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پتلا زرد، ان میں سے جس کی خصوصیات غالب آجاتی ہیں ، بچہ اسی سے مشابہ ہوتا ہے۔“ ٭ یہودیوں کے عالم عبد اللہ بن سلام کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف آوری کی خبر ہوئی تو آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ مجھے تین باتوں کا جواب دیں ، کیونکہ ان کا جواب صرف ایک نبی ہی دے سکتا ہے۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ بچہ ماں یا باپ سے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :