کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 14
أن ولد الزنا لا يرث الزاني لعدم ثبوت النسب وإن كان من مائه“ (3/338) ”وراثت کا تعلق نسب کے ثابت ہونے سے ہے، نہ کہ اس بنا پر کہ بچہ اس کے نطفہ سے ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ولد الزنا زانی کا وارث نہیں بن سکتاکیونکہ اس کانسب اس سے ثابت نہیں ہے باوجود اس کے ، کہ وہ اس کے نطفہ سے ہے۔“ ٭ امام سرخسی اپنی معروف کتاب المبسوط میں لکھتے ہیں : رجل أنه أقرَّ بامرأةٍ حرةٍ وأَن هذا الولد ابنه من الزنا وصدَّقتْه المرأة فإن النسبَ لا يثبتُ من واحد من قولِهما لقولِ النبي صلی اللہ علیہ وسلم (الولدُ للفراش وللعاهر الحَجر) ولا فراشَ للزاني وقد جعل رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم حظَّ الزاني الحجر فقط وقيل هو إشارة إلى الرجم وقيل هو إشارة إلى الغَيبة كما يقال للغيبة الحجر أي هو غائب لا حظ له والمراد هنا أنه لا حظ للعاهر من النسبِ وبَقِي النسب من الزاني حق الشرع إما بطريقِ العقوبةِ ليكون له زجرًا عن الزنا إذا عَلِم أن ماء ه يضيع به... الخ ‘‘(17/155، مسئلہ 2009) ”کسی آدمی نے اس امر کا اعتراف کرلیا کہ اس آزاد عورت سے زنا کے نتیجے میں اس کا یہ بیٹا پیدا ہوا ہے اور اس بات کی عورت نے بھی تصدیق کردی تو ان دونوں میں سے کسی کی بات پر نسب ثابت نہیں ہوگا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: بچہ بستر کے مالک کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں ۔چونکہ زانی کا یہ بستر نہیں اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کے لیے بدلہ میں صرف پتھر رکھے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ اس میں زانی کے رجم کی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں کچھ نہ ملنے کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ عربی میں حجر اس کے لیے بولا جاتا ہے جس کا کوئی حصہ نہ ہو۔ مراد یہ کہ زانی کا نسب میں کوئی حصہ /حق نہیں ہے۔ زانی سے نسب کایہ حق لینا شرعی عقوبت کی بنا پر ہے تا کہ زانی کو اس امرکی تنبیہ کردی جائے کہ تیرا نطفہ ضائع ہی جائے گا۔“ ٭ امام ابن حزم ظاہری رحمۃ اللہ علیہ اپنی معروف کتاب المحلّٰى بالآثارمیں لکھتے ہیں : والولد يلحق في النكاح الصحيح ( 10/142، مسئلہ 2009) ”بچے کا صحیح نکاح کے نتیجے میں ہی (باپ سے) الحاق کیا جائے گا۔“ ٭ کویت میں 45 جلدوں میں تیار ہونے والے الموسوعة الفقہية میں ہے: