کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 13
فریق بچے کے نسب اور حقوق لینے کے دعویدار تھے، جبکہ زیاد کے نسب میں عبید اس کے نسب کا سرے سے داعی نہ تھا۔ دوسری طرف ابوسفیان کے ورثا وغیرہ داعی تو تھے لیکن وہ ان سے ناجائز بستر کی بنا پر منسوب نہ ہوسکتا تھا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ (الولد للفراش وللعاهر الحجر) والا اصول اس صورت میں ہے جب بچے کے دعویدار ایک سے زیادہ ہوں ۔اگر شوہر اس بچے کا داعی ہی نہیں ہے تواس کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا۔چنانچہ کسی بچے کو باپ سے منسوب کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس کا اقرار کرتا ہو۔ البتہ نسب کو رفع کرنے کا اسلام میں ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ’لعان‘۔ اگر کوئی باپ بچے کا اقراری نہ ہو تو اس بچے کی اپنے سے نسبت کوختم کرنے کے لئے وہ لعان کا راستہ اختیار کرسکتا ہے لیکن لعان کی صورت میں اس کی بیوی کا بعد میں بیوی رہنا ممکن نہیں رہتا۔ کیونکہ اگر ایک شوہر اپنی بیوی پر بدکرداری کا الزام عائد کرے تو ایسی صورت میں یا وہ تہمت کی سزا پائے گا یا اسے زنا کے چار گواہ پیش کرنا ہوں گے اور اگر وہ گواہی ثابت کردیتا ہے تو اس کی بیوی شادی شدہ عورت ہونے کی و جہ سے رجم ہوکر موت سے ہم کنار ہوجائے گی۔ یا لعان کی صورت میں چار قسمیں کہا کر اس عورت سے جدائی کرکے وہ اس بچہ سے اپنے نسب کو رفع کرلے گا اور اس ولد الزنا کا نسب اپنی ماں کی طرف ملحق ہوجائے گا، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ گویا اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگانے کے بعد وہ عورت آخر کار اس شوہر کی بیوی نہیں رہ سکتی، الا یہ کہ اس عورت پر زنا میں جبر کیا گیا ہو۔ فقہا کا نقطہ نظر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’احکام القرآن ‘ میں لکھتے ہیں : فكان معقولا في كتاب اللّٰه أن ولد الزنا لا يكون منسوبا إلى أبيه لما وصفنا من أن نعمته إنما تكون من جهة طاعته لا من جهة معصيته“ (2/190) ”کتاب اللہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ولد الزنا کو اسکے باپ سے منسوب نہ کیا جائے کیونکہ اولاد اللہ کی نعمت ہے او ریہ نعمت اللہ کی اطاعت کے نتیجے میں ملتی ہے نہ کہ نافرمانی پر۔“ ٭ امام ابو بکر جصاص حنفی اپنی کتاب ’احکام القرآن‘ میں لکھتے ہیں : فالميراث إنما يتعلق حكمه بثبوت النسب منه لا بأنه من مائه ألا ترىٰ