کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 12
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد کو دیکھا کہ وہ بڑا اثر ورسوخ والاشخص ہے تو اس کو قریب کرنے کی کوشش کی او راس کے بارے میں دعوی کیا کہ یہ تو میرے باپ کی پشت سے پیدا ہوا ہے (گویا میرا بھائی ہے)۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو زیاد فارس کے صوبہ پران کا نائب تھا۔ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ زیاد نے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا کہ تم دیکھتے نہیں کہ امیرالمومنین (معاویہ رضی اللہ عنہ ) مجھ سے یہ یہ توقعات رکھتے ہیں حالانکہ میں عبید کے بستر پر پیدا ہوا ہوں ، اُسی سے میری مشابہت ہے (یہ زیاد کا اپنا خیال ہے) اوریہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو اپنے باپ کے علاوہ اپنے آپ کو منسوب کرے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھ لے۔“ چونکہ زیاد ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا ناجائز بیٹا تھاکیونکہ سمیہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی باندی نہیں تھی۔ ایسی صورت میں زیادکی نسبت ابو سفیان سے نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی عبید سے کیونکہ عبید اس ہم بستری سے ویسے ہی بری ہے، یہ اس کی بیوی کی جاہلیت میں غلط کاری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کتب ِتاریخ میں زیاد کانام زياد بن أبيہ (اپنے باپ کا بیٹا ) آیا ہے یا زياد بن سمية یعنی وہ اپنی ماں سے منسوب ہوا۔ اس سے پتہ چلا کہ زیادکو زیاد بن ابی سفیان کہنا درست نہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صرف سیاسی مصلحت کے پیش نظر ایسا کرنے کی خواہش کی تھی۔ ٭ یاد رہے کہ صحیح بخاری اورموطأ میں روایت ہونے والی ایک حدیث کی سند میں اس کو زیاد بن ابوسفیان کے نام سے ذکر کیا گیا ہے لیکن بخاری کے شارح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم کے شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وجہ بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو قرار دیا ہے اور چونکہ حاکم کا فیصلہ بظاہر جاری ہوجاتا ہے، لیکن اس سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : فتح الباری: 3/545 اورشرح نووی:2/52 وغیرہ ایک شبہ اور اس کی وضاحت :عتبہ اور زمعہ کے بچے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہ ہے کہ یہ بچہ زمعہ کو دے دیا جائے، کیونکہ اس کے بستر پر پید اہوا گویا کہ اس کا نسب زمعہ سے جوڑا گیا ہے جبکہ زیاد کے واقعے میں زیاد کا نسب بستر کے جائز مالک عبید سے جوڑنے کی بجائے اسے زیاد بن ابیہ کہا جاتا رہا۔ ایسا فرق کیوں ہے ؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نسب میں دعویٰ کا بھی عمل دخل ہے۔ زمعہ کے کیس میں دونوں