کتاب: محدث شمارہ 290 - صفحہ 10
یہ اُصول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبے واقعہ کے ضمن میں بیان فرمایا ہے جس سے اس کی مراد مزید واضح ہوجاتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص (کافر) نے اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کو وصیت کی تھی کہ ’زمعہ‘کی باندی کا بچہ میرے نطفہ سے ہے، اس لئے تم اسے اپنے قبضہ میں کرلینا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا، سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے اس بچے کو اُٹھالیا اور کہا کہ یہ میرے بھائی (عتبہ) کا بچہ ہے اور انہوں نے اس کے متعلق مجھے وصیت کی تھی۔ جبکہ عبدبن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔گویا یہ اختلاف دو آدمیوں (زمعہ اور عتبہ)کے عمل کا نتیجہ ہے جنہوں نے جاہلیت میں ایک لونڈی سے ہم بستری کی تھی اور زانی بچے کو اپنی طرف منسوب کرنا چاہتا تھا۔ بالآخر دونوں کے نمائندے مقدمہ لے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ”یہ میرے بھائی کابیٹاہے اوراس نے مجھے اس کے بارے میں وصیت کی تھی۔“ پھرعبد بن زمعہ نے کہا کہ ”یہ لڑکا میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا لڑکا ہے اور میرے باپ ہی کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔“ اللہ کے رسول نے دونوں طرف سے بیان سننے کے بعد فرمایا: کہ ”اے عبد بن زمعہ! یہ لڑکا تمہارے پاس رہے گا، پھر آپ نے فرمایا کہ (الولد للفراش وللعاهر الحجر) ”بچہ اس کا ہوگاجس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لئے پتھروں کی سزا (رجم) ہے۔ “ پھر آپ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا (جو حضور کی بیوی، عبد کی بہن اور اب اس لڑکے کی بھی بہن بنتی تھیں ) سے فرمایا کہ اس لڑکے (یعنی قانونی بھائی) سے پردہ کرنا کیونکہ آنحضرت اس لڑکے میں (زمعہ کی بجائے) عتبہ کی مشابہت محسوس کرتے تھے۔ (چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے پردہ کرنے کی وجہ سے) اس لڑکے نے اُنہیں مرتے دم تک نہیں دیکھا۔“ (صحیح بخاری :2053) اس واقعہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دعویٰ کو آپ نے اس بنیاد پر غلط قرار دیا کہ وہ لونڈی اس کے بھائی کا ’فراش‘ نہیں تھی۔ اور اس بچے کو زمعہ کے خاندان کے حوالے کردیا کیونکہ اس لونڈی کا مالک وہ تھا۔ البتہ ساتھ ہی اس بچے کی قانونی بہن اُمّ المومنین کو اس سے پردہ کا حکم