کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 9
جس ریاست کی اسمبلی ہے وہ اپنی آبادی کے اعتبار سے ساری اور مکمل ہے۔ کیا اس کے دوسرے فیصلوں کو بھی یہ کہہ کر کہ اسمبلی معمولی سی ہے رد کیا جا سکتا ہے؟ ویسے یہ تو فرمائیں کہ پاکستان میں خود مرزائی کتنے ہیں؟
(د)کہتے ہیں کہ: صدر اور وزیر اعظم کے حلف نامہ میں ختم نبوت کو ماننا شامل ہے۔ لہٰذا قومی اسمبلی کے فیصلے کی رو سے مرزائی اقلیت ہو گئے مگر یہ غلط ہے، کیونکہ اس کے جو الفاظ ہیں، ان سے یہ معنی لینا جائز نہیں، ورنہ شیعہ، اہلحدیث، بریلوی اور نزول مسیح کے قائل لوگ بھی غیر مسلم ہو جائیں گے۔ ص ۵
دراصل یہ مغالطہ دہی کی ایک بھونڈی کوشش ہے، ورنہ بات صرف اتنی ہے کہ ملکی آئین، معروف معنوں میں ’ختم نبوت‘ کو جمہور کے مطالبہ کے پیش نظر تحفظ دینا چاہتا ہے۔ اگر اس کے الفاظ کما حقہ اس مفہوم کو محیط نہیں ہیں تو منشا اور غرض کے صحیح ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر کوئی کمی رہ گئی تو لفظی اصلاح بعد میں بھی کی جا سکے گی۔
(ر)مرزائی بھی ختم نبوت کے قائل ہیں، مسیح موعود کے آنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ بعد میں آئے بلکہ ورے کے ہیں۔ ص ۵
معنی بعد میں نہیں، ورے کے ہیں۔ ایک نیا لغت تیار ہو رہا ہے یعنی پچھلی جانب سے آنے والے کے ہیں، بعد میں آنے والے کے نہیں ہیں۔ اس لئے ہم ختم نبوت کے منکر نہیں ہیں، سبحان اللہ، کس قدر علمی بات کہی ہے؟ تیرہ سو سال بعد جو صاحب آئے کیا اس کو، بعد میں آنے والا کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ کی تاویل کی کیا تک؟ اس کے علاوہ خاتم النبیین کی پچھلی جانب سے آنے والے کے کیا معنی ہیں، پیغمبری کی کتنی جانب ہیں؟ اور اس کا حاصل کیا ہے یہی نا کہ ان کے بعد آیا! اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمراہ ہے مگر پچھلی جانب میں ہے تو یہ چوروں والی بات ہوئی، اس کے علاوہ اس ’ورے‘ کے معنی میں ’اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور سبحاح نامی نبیہ بھی نبی تھے، تو ثابت ہوا کہ ’درے‘ کے معنی میں ہو یا بعد کے نقب زنی ہے۔ ان کی وہی سزا جو چور کی۔ مگر چور وہ جو ردائے ختم نبوت کا چور۔
(س)اگر کسی نے فساد برپا کیا تو اس کو پتہ لگ جائے گا۔ ص ۵
۵۳ ء والے ہنگاموں کی بات دل سے نکال دو، ہم موت سے نہیں ڈرتے، وقت آنے پر دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔