کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 7
(یہ بڑے زور کی)آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب ہے۔ جو اپنے رب کے حکم سے ہر شے کو تہس نہس کر دے گی۔
دراصل یہ ساری تباہی اس امر کا نتیجہ ہوتی ہے کہ کام الٹے کرتے ہیں اور سیدھے انجام کی توقع رکھتے ہیں۔
﴿فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَرِثُوْا الْكِتَابَ يَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰذَا الْاَدْنٰي وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُلَنَا ﴾(اعراف. ع۲۱)
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے کہ وہ کتاب کے وارث (تو)بنے (لیکن اگر ان کو دین کے بدلے اس دنیائے دُوں کی کوئی چیز مل جائے تو لے لیتے ہیں اور ہانکتے ہیں کہ یہ گناہ تو ہمارا معاف ہو ہی جائے گا۔
مسلمانو! بہت ہو چکی، اب سنبھلو، ہوش میں آؤ۔ وقتی اور عارضی منفعت اور آسودگی کے لئے اپنی دائمی اور ابدی راحتوں کو غارت نہ کرو۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اندر جو رخنے پڑ گئے ہیں، ان کی اصلاح حال کی طرف توجہ دو۔ اور رب کے حضور توبہ کرو، خدا کی طرف سے اتمام حجت ہو چکا ہے اب فیصلہ ہونے کو ہے اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر کرے خدا کو منانے کے لئے اس کی طرف رجوع کرو۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ پہلی قوموں کو غفلت کے جو دن دیکھنے پڑے گے، وہ دن ہم پر نہ آجائیں۔
﴿رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَةٌ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾