کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 6
میں)ان کی مدد کیوں نہ کی بلکہ (وہ تو الٹے وقت آنے پر)ائب ہو گئے۔ یہ سب باتیں ڈھکی چھپی نہیں رکھی گئیں، بلکہ ان سب کی یہ داستانیں، آپ سب کو بھی سنا دی گئیں۔ شاید آپ کو ہوش آجائے۔ ﴿وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا مَاحَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰيَاتِ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ.﴾ اور ہم نے تمہارے آس پاس کی (کتنی)بستیاں ہلاک کر دیں اور بدل بدل کر ہم نے (یہ)نشانیاں دکھائیں شاید یہ لوگ باز آجائیں۔ دیت نامیوں پر کیا گزری، جرمنیوں کا کیا حشر ہوا، عربوں کو کن مصائب کا سامنا ہے اور کس شرمناک ہزیمت سے دو چار ہوئے، خود ہم نے مشرقی پاکستان کے سلسلے میں کتنے ہولناک زخم کھائے ہیں؟ کوئی راز کی بات نہیں رہی۔ جوان داستانوں کو ایک کہانی یا غیر کی بپتا سمجھ کر سنتے ہیں اورسن کر بے پرواہ ہو رہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ وہ خود بھی ایک کہانی بن جائیں گے۔ جو دوسروں سے عبرت نہیں پکڑتے، وہ خود سامانِ عبرت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور ہم سب کا روز کا مشاہدہ ہے۔ پاکستانی لوگ، خاص کر پیپلز پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد، جس ناگفتہ بہ کردار، نابکار طرزِ حیات، ننگِ دین اخلاق اور غیر اسلامی فکر و عمل کو اوڑھنا بچھونا بنا کر چل رہے ہیں، وہ اس امر کا غماز ہے کہ، وہ اپنے مکروہ سفرِ حیات کے بد نتائج سے بے پرواہ ہو کر چل رہے ہیں۔ بلکہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ، خوب کر رہے ہیں۔﴿ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعَا﴾ (کہف)اور متوقع ہیں کہ سب خیر رہے گی۔ ظاہر ہے یہ صورتِ حال خطرناک ہے۔ قومِ احقاف نے جب انبیاء کی ایک نہ سنی تو بادلوں کی شکل میں اللہ کے عذاب الیم نے ان کی طرف رخ کیا، اپنی سیاہ کاری کے انجام سے غافل لوگ دیکھ کر جھوم اُٹے اور بولے۔ ﴿ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ﴾(احقاف.ع۳) (آہا)یہ تو ایک ابر ہے (اور)ہم پر برستا ہوا (معلوم ہوتا ہے) آواز آئی! ﴿بَلْ ھُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِه رِيْحٌ فِيْھَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِاَمِْ رَبِّھَا ﴾(ايضاً) (نہیں نہیں، اب نہیں ہے)بلکہ یہ وہی (عذابِ خدا)ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے تھے