کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 42
کہیں قتل کا کم بصراحت موجود نہیں ہے)قاتل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی صراحت سے مستوجب قتل قرار دیا ہے۔ اسی طرح دوسری آیات (جن میں مرتد کے قتل کا حکم بصراحت موجود نہیں ہے)صحیح احادیث کی صراحت سے مرتد کو مستوجب قتل قرار دیا ہے۔ چنانچہ خود علامہ سمرائی بھی جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں قتلِ مرتد کا حکم موجود نہیں ہے بلکہ یہ حکم سنتِ نبوی سے ثابت ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ صراحۃ النص سے مرتد کا مستوجب قتل ہونا ثابت نہیں اسی طرح خود قاتل کا بھی صراحۃ النص سے مستوجب قتل ہونا ثابت نہیں۔ قاتل کی سزائے قتل کا جہاں ھی ذکر ہے وہ استنباطی ہے۔ تصریحی نہیں ہے۔
یہ طریق استنباط صرف قتلِ مرتد کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد تعزیری احکام بصراحت موجود نہیں ہیں۔ مثلاً شراب نوشی کی شرعی سزا کا کوئی ذکر صراحتاً قرآن حکیم میں نہیں ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ سزا جائز ہی نہیں ہے اور جس طرح کہا جائے کہ ارتداد کوئی جرم نہیں اسی طرح شراب نوشی بھی جرائم کی فہرست سے خارج سمجھا جا سکتا ہے اور تاوقتیکہ شراب پینے والا کسی اور جرم کا مرتکب نہ ہو مستوجب سزا نہیں ہو گا۔ اس قسم کے تمام شبہات فقہی بصیرت کے منافی ہیں۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ متعدد مفسرین نے قرآنی آیات سے قتل مرتد کا حکم اخذ فرمایا ہے۔ مثلاً مفسر ابن حیان کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
سورۂ توبہ کی آیت ۱۱ تا ۱۳ میں ہے کہ:﴿ وَاِنْ نَّکَثُوْآ اَیْمَانَھُمْ مِنْ بَعْدِ عَھْدِھِمْ.... اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾
اگر وہ لوگ عہد (یعنی اسلام قبول کر لینے کا عہد)کرنے کے بعد اپنے عہدوں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر زبان طعن دراز کریں تو پھر کر کے ان لیڈروں سے جنگ کرو۔
یہ ترجمہ مؤلف کتاب نے خود بحوالہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ درج فرمایا ہے۔ لیکن اس پر یہ تنقیح فرمائی ہے کہ لفظ عہد کا جو مفہوم ڈاکٹر صاحب نے لیا ہے، مستند تفاسیر اس کی تائید نہیں کرتیں۔ اس عہد سے مراد اسلام نہیں بلکہ معاہدۂ امن ہے لیکن انہوں نے یہ حقیقت نظر انداز فرما دی ہے کہ معاہدۂ امن بجائے خود عہد اسلام کے مترادف ہے۔ تاہم اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ فضلائے عصر جن کے علم و فضل کا خود مؤلف کو اعتراف ہے۔ قرآنی آیت سے مرتد کی سزائے قتل ثابت کرتے ہیں کیونکہ اسلام کا ترک بھی ترکِ عہد کی ایک صورت ہے۔
سورۃ آلِ عمران ۸۶ تا ۹۱ میں ہے کہ جنہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا انہیں مہلت نہ دی جائے گی۔ ہاں توبہ کر لیں تو اللہ مغفرت کرنے والا ہے۔ مہلت نہ دی جانے میں