کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 40
متفق ہیں۔ ان کی تالیف کتاب الفتاویٰ صفحہ ۱۶۱ و ۱۶۲ ملاحظہ ہو۔ اس میں بوضاحت بتایا گیا ہے کہ جو مسلمان ہو کر کافر ہو جاوے وہ فرمانِ نبوت کے بموجب واجب القتل ہے۔ حلبی رحمہ اللہ اور ابن ہمام رحمہ اللہ کے باب میں یہ ارشاد کہ ان اصحاب کے خیال میں ارتداد کی کوئی سزا اس دنیا میں نہیں ہے سراسر خلافِ واقعہ ہے۔ اس کے برعکس ہر دو اصحاب نے نہایت وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ ہاں علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے توبہ کے لئے کچھ مہلت دی ہے کہ ان قتله قاتل قبل عرض الاسلام کرہ ولا شیء یعنی اگر کوئی شخص (مرتد کو)اسلام پیش کرنے سے پہلے ہی قتل کر دے تو یہ فعل مکروہ ہے لیکن قاتل سے باز پرس نہ کی جائے گی (شرح فتح القدیر ابن الہمام ص ۳۸۶، ۳۸۷)ظاہر ہے کہ جو شخص اس شد و مد سے قتل مرتد کا حامی ہو وہ اس سزا کو غیر منصفانہ کیسے کہہ سکتا ہے۔ علامہ حلبی رحمہ اللہ اس بارے میں اس سے بھی زیادہ متشدّد معلوم ہوتے ہیں وہ کہتے کہ مرتد کو اسلام لانے کے لئے کہا جائے اگر انکار کرے تو وہیں قتل کر دیا جائے۔ تین دن کی مہلت نہ تو واجب ہے نہ ہی مستحب ہے۔ (بحوالہ حاشیہ بالا)ایسی صورت میں کتاب کی تحقیقی حیثیت جو رہ جاتی ہے وہ ظاہر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی امور حقائق کے خلاف بتائے گئے ہیں۔ جن کی تفصیل مفصل مضمون میں کی گئی ہے۔ اب ان دلائل پر ایک نظر ڈالیے جو فاضل مؤلف کتاب نے قتل مرتد کے خلاف اس کتاب میں پیش فرمائی ہیں۔ اس باب میں سب سے پہلے انہوں نے قرآن حکیم سے استدلال فرمایا ہے کہ قرآن میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ مرتد اس دنیا میں کس سزا کا مستوجب ہے (ص ۱۰)اپنے اس دعوے کو ثبوت میں انہوں نے علامہ سمرائی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم میں جہاں جہاں مرتد کا ذکر لفظاً یا معناً آیا ہے ان آیات پر میں نے غور کیا اور مختلف تفاسیر کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مرتد کی سزائے قتل کتاب (قرآن حکیم)میں نہیں آئی بلکہ سنت سے ثابت ہے۔ ص ۱۰ ساتھ ہی ان کاکہنا ہے کہ فقہا نے کتاب و سنت دونوں سے جو نتائج اخذ فرمائے ہیں ان میں اختلافات ہیں۔ (احکام مرتد سمرائی ص ۱۲)لیکن آگے چل کر ان اختلافات کی تشریح بیان فرمائی ہے کہ اختلافات کے باوجود ہر مفسر کا اس امر