کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 4
ہو گزرے۔‘‘
یہ ہوش ربا فساد فی الارض اور اس کے ہولناک نتائج بد، جتنے جہاں کہیں اور جب کبھی پیش آئے حق تعالیٰ نے دہرا دہرا کر ان کی داستانیں انسانوں تک پہنچائیں۔ پہنچاتا آرہا ہے اور اب بھی پہنچ رہی ہیں۔
﴿تِلْکَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَائِھَا﴾ (اعراف۔ رکوع ۱۳)
آفات، مصائب، بربادیوں اور تباہیوں کے جو جھکڑ چلتے رہتے ہیں۔ دنیا آج بھی اور کل بھی یہی کہتی رہی ہے کہ، یہ سب زمانے کے اتفاقات ہیں، ان کے پیچھے کوئی مقصد اور اصول کار فرما نہیں ہے:
﴿وَمَا اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّا اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّھُمْ يَضَّرَّعُوْنَ. ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاءَنَا الضَّرَّآءُ وَالسَّرَّآءُ﴾ (پ۹. اعراف. ع۱۲)
اور جس بستی میں ہم نے نبی بھیجا (جب نہ مانے تو)وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختیوں اور مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ (رب کے حضور)گڑ گڑائیں، پھر ہم نے سختی کی جگہ آسانی کو بدلا، یہاں تک کہ خوب بڑھے (چڑھے)اور لگے کہنے کہ اس طرح کی سختیاں اور راحتیں تو (کوئی نئی بات نہیں)ہمارے آباؤ اجداد کو بھی پہنچ چکی ہیں۔
جب کوئی قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہے، تو پھر ان مغضوب قوموں کی راہوں پر چلنے سے کچھ زیادہ پرہیز نہیں کرتی، اس لئے وہ بھی انہی مصائب اور تباہیوں کا شکار ہو جاتی ہے، جس کی ان سے پہلے قومیں شکار ہوئیں۔
﴿فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَةً وَھُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ﴾ (پ۹۔ اعراف ع۱۲) تو (اس كج فہمی کی سزا ميں)ہم نے ان کو ان کی بے خبری کے عالم میں اچانک دھر لیا۔
فرمایا: ان کے دل سیاہ اور پتھر ہو گئے تھے اور اپنی سیاہ کاریوں کا احساس کرنے کے بجائے ان کو سراہتے ہوئے، ان سے اور چمٹ رہے۔
﴿وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَزَيَّنَ لَھُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (پ۷. الانعام ع۵)
’’مگر ان کے دل سخت ہو گئے تھے اور جو (بد عمل)کرتے تھے شیطان نے (ان کو ان کی نظروں میں)حسین کر کے دکھایا تھا۔‘‘