کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 35
جائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عصری علم الاقتصاد کی روشنی میں یہ بتایا جاتا کہ ’’ربوٰا‘‘ سے معاشرے کو اور عدل کی قدر کو کیا نقصان پہنچتا ہے اور کس طرح ایک کا سود لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات بن جاتا ہے۔ اس طرح خطاب مسلم اور غیر مسلم دونوں کو عقل سے ہو گا۔ اس سے مسلم کا ایمان علی وجہ البصیرہ پختہ ہو گا اور غیر مسلم ایمان لائے بغیر بھی ربوا کی حرمت کا قائل ہو جائے گا۔ جیسا کہ میں نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا میرے علم میں مقاصد الشریعۃ کو پروان چڑھانے کی صرف وو قابل ذکر کوششیں ہوئیں۔ ایک قفال شاشی نے کی اور دوسری شاہ ولی اللہ نے۔ ماضی میں مختلف وجوہ کی بناء پر یہ علم پختگی اور کمال کو نہ پہنچ سکا۔ موجودہ دور میں قدیم اور جدید تعلیم کی فریق کی وجہ سے اس علم میں ترقی کے مواقع بہت محدود ہیں۔ پوری اہلیت کے بغیر جو کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان میں علمی گہرائی نہیں ہوتی۔ دراصل یہ مسئلہ عقل اور وحی میں تطبیق کا ہے۔ جو مختلف فلسفیوں کے نظام فکر میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ الجزائر کے ایک دینی معہد کے مدیر شیخ ابراہیم بیوض نے خوب کہا۔ ان کے الفاظ نقل کرنے اور یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ ’’عقل دیدۂ بینا ہے اور شریعت روشنی کا منبع۔ نہ تو صیرت سے محروم آنکھ روشن میں کچھ دیکھ سکتی ہے اور نہ دیدۂ بینا کو اندھیرے میں کچ نظر آسکتا ہے۔ یہ ہے رشد و ہدایت کے میدان میں عقل و شرع کا تلازم‘‘ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس قدیم طرز کے سادہ اور بے نیاز عالم دین کے سامنے الجزائر کے وزیر تعلیم سراپا عجز و انکسار تھے اور اس عالم دین کا کردار دیکھئے کہ آنکھوں کے آپریشن سے پوری فراغت بھی نہ ہوئی تی۔ ہسپتال سے سیدھے قاعۃ المحاضرات (کانفرنس ہال پہنچے اور ٹھیک وقت مقررہ پر اپنا مقالہ پڑھا۔ محض وعدہ وفا کرنے کی خاطر بغیر اس کے کہ انہیں کوئی مادی فائدہ ہو۔ آخر میں اس پر بھی غور کیا گیا کہ شریعت کی تنفیذ تو امراء حکام اور حکومتوں کا منصب ہے۔ علماء اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جو تجویز پسند کی گئی وہ یہ کہ مختلف ممالک میں شریعت کو قانونی سانچہ میں ڈھالنے اور زندگی کے نئے مسائل میں اجتہاد کرنے کی جو کوششیں جاری ہیں۔ ان میں ربط پیدا کرنے کے لئے ایک مرکزی ادارہ قائم کیا جائے جو سیاست میں ملوث نہ ہو اور جس میں علم اور اجتہاد کے شرائط کا پورا پورا لحاظ کیا جائے۔ اس طرح شریعت کی تنفیذ کے لئے راہ ہموار ہو سکے گی اور سارے عالم اسلام میں بیداری اور فکر کی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔