کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 34
اس مناقشہ میں ضمنی طور پر جو باتیں کہی گئیں وہ بھی کچھ کم سبق آموز نہیں۔ ایک یہ کہ بعض خالص اسلامی فقہی اصطلاحیں ہیں جن کا اس دور میں سیاسی اغراض کے لئے ناجائز استعمال عام ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر لیجئے ’جہاد‘ اور ’شہید‘۔ سیدہ زینب الغزالی نے زور دے کر کہا کہ ’جہاد‘ صرف وہ ہے جو ’اعلاء کلمۃ اللہ‘ کے لئے ہو۔ اب خیال کیجئے سیاسی اقتدار کی خانہ جنگی میں بھینٹ چڑھنے والے جنہیں ہم شہید کہتے ہیں کیا وہ جہاد کی اس تعریف کا مصداق ہیں؟ ان فقہی اصطلاحات کے ناجائز استعمال سے وہ مقاصد جو اسلام کی نظر میں مقدس نہیں‘ مقدس بنتے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں رومیوں کے مسلسل حملوں کے خلاف شمالی افریقہ کے لمبے ساحل کے دفاع کی غرض سے ایک رضا کارانہ تنظیم قائم تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بستیں کا ایک سلسلہ تھا جنہیں رباط کہتے تھے۔ یہاں فدائی عام انسانوں کی طرح خود کسب معاش کرتے اور ساتھ ہی ساتھ فوجی تربیت بھی حاصل کرتے تھے اور ہمہ وقت دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ان کی شجاعت اور جذبۂ شہادت ضرب المثل تھا۔ یہ صحیح معنی میں اسلام کی خانقاہیں تھیں جو جوش عمل اور جہاد بالسیف کے غلغلہ سے معمور تھیں۔ الجزائر میں ان سرفروش مجاہدوں کو ’’مسبّل‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ نظام آج تک باقی تھا اور الجزائر کی جنگِ آزادی میں ان مسبّلین کے کارنامے نمایاں رہے۔ پہاڑی علاقہ میں جہاں قبائلی اپنے روایتی نظام کے ساتھ رہتے ہیں، ہمیں وہ مقامات دیکھنے کا موقع ملا جہاں ناپام بمب گرے لیکن یہ مسبلین ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ نوجوان طالب علم جنہیں علماء کے اس اجتماع میں سوالات کرنے اور بعض کو مختصر تقریریں کرنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے یہ جتایا کہ ان کے آباء نے اسلام کی خاطر جہاد کیا تھا اور اب وہ ملک کی تعمیر میں اسلام کا بول بالا چاہتے ہیں۔ یہ نوجوان کورس کی شکل میں جو ترانہ گاتے تھے وہ یوں شروع ہوتا ہے۔
شعبُ الجزائر مُسْلِم الجزائر میں بسنے والی قوم مسلم ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس دور کے مسلمانوں میں جو لوگ عبادات صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں ان میں اکثریت وہ ہے جو ان عبادات کو فضائل نفسیہ سے کوئی ربط نہیں دیتی۔ حالانکہ ان عبادات سے مقصد فضائل اخلاق کی تربیت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تعلیم و تربیت کا اور وعظ و ارشاد کا نقص ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ جہل کے ساتھ عبادت کرتے ہیں اور ساری عمر اس جہل پر قانع رہتے ہیں۔ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مشین کی طرح جنبش لب اور چند جسمانی حرکات یا جسمانی مشقت کا نام عبادت ہے۔ پھر وہ عبادت کرتے ہیں اور بدترین اخلاق، جھوٹ، جعل فریب، دھوکہ بازی، حرص لالچ، کسبِ حرام میں لگے رہتے ہیں اور انہیں کبھی ان دونوں میں کوئی تناقص محسوس نہیں ہوتا۔
سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ شرعی احکام کی حکمت سمجھنے اور بیان کرنے کا اہتمام کیا جائے مثلاً ایک طریقہ تو یہ ہے کہ قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہوئے ’ربوٰا‘ کی حرمت سے متعلق مسائل بیان کر دیئے