کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 33
الجزائر کے صدر بومدین نے بھی ۱۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو قانونی کمیشن کے نام ہدایت جاری کی کہ ’ہمارے موجودہ قوانین ہمارے لئے بالکل اجنبی ہیں اور شریعت کے خلاف ہیں۔ ان میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی شریعت ہی قانون کا مصدر اور منبع ہو۔‘‘ صدر بومدین بھی قول کے سچے اور بات کے پکے ہیں۔ جس زمانے میں میرا قیام الجزائر میں تھا انہوں نے زرعی اصلاحات کا آغاز کیا تو سب سے پہلے یہ اعلان کیا۔ ’’جہاں تک میرا تعلق ہے میں کسی زمین کا مالک نہیں ہوں میں انقلابی کونسل کے ارکان اور وزراء کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ انہوں نے برضا و رغبت اپنی اپنی زمینیں دے ڈالی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی احکام جاری ہو چکے ہیں کہ تمام سرکاری ملازمین کو ایسا ہی کرنا ہو گا۔ اس کے مطابق فہرستیں بھی تیار ہو چکی ہیں۔‘‘ خدا انہیں توفیق دے کہ شرعی قانون کی بابت انہوں نے جو ہدایت جاری کی ہے اسے بھی عملی جامہ پہنا کر دکھلائیں۔ مصر کے قانون مدنی کی بابت یہ بات بڑے شد و مد کے ساتھ دہرائی گئی کہ وہ بڑی حد تک شریعت کے موافق ہے۔ اس ذیل میں یہ تاریخی حقیقت بھی ابھری کہ جب نپولین مصر سے پسپا ہوا تو وہ اپنے ساتھ معاملات (بیع، رہن، ہبہ وغیرہ)سے متعلق اسلامی قوانین کا مجموعہ لے گیا اور انہیں کو اس نے کوڈ نپولین کے نام سے ۱۸۰۴ء میں نافذ کیا۔ اس کا بیشتر حصہ ’شرح الدردیر علی مختصر خلیل‘‘ کا ترجمہ ہے جو صدیوں مصر کے قضاۃ اور حکام میں متداول رہی ہے۔ استاد مصطفے الزرقاء نے اس بات کا مفصل اور مدلل جواب دیا انہوں نے کہا کہ مصر کا قانون مدنی شریعت کے موافق ہو تو ہو براہ راست شریعت سے ماخوذ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عدالتیں تفسیر و تشریح میں اسلامی فقہ کے مآخذ کے بجائے فرانس کے ماہرین قانون کی رائے اور وہاں کے نظائر کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ اصل مطلوب توافق نہیں۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ شریعت منبع اور مصدر ہو۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا مغرب کی غلامی بدستور رہے گی۔ احوال شخصیہ سے متعلق شرعی قوانین کی بابت کہا گیا کہ ان میں فی الواقع اجتہاد اور اصلاح کی ضرورت ہے جیسے کہ وہ چلے آرہے ہیں۔ بڑی دشواری بلکہ بے دردی کے موجب ہیں۔ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ یہ شریعت کی نہیں بلکہ مخصوص مذہب کی بات ہے۔ یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ فقہاء کا اختلاف رحمت ہے۔ مختلف مذاہب کے سامنے رکھا جائے تو عملی دشواریوں کا حل پہلے سے موجود ہے۔ تلفیق مانا ہوا اصول ہے جس کی رو سے نیک نیتی کے ساتھ اور مصلحت عامہ کو سامنے رکھ کر مختلف مذاہب کے فتاوٰی پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ مفقود الخبر شوہر کے مسئلہ میں جو عملی دشواری محسوس کی گئی اس کو اسی طرح حل کیا گیا ہے۔ البتہ اگر شریعت کو مغری تصورات کے سانچے میں ڈھالنا مقصود ہے (جیسا کہ تعداد ازواج کے مسئلہ میں)تو یہ تو شریعت کو مسخ کرنا ہے۔ ایک دینی پیشوا ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ یہ بھی اجتہاد ہے۔