کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 32
سیاسی غلامی سے نجات پانے کے بعد بھی مسلمان مغربی قوانین میں جکڑے ہوئے بے دینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سب سے پہلے قوانینِ وضعیہ (غیر شرعیہ)مصر میں رائج ہوئے۔ محمد علی پاشا یورپ کی نقالی پر فخر کرتے تھے۔ انہوں نے یورپ سے قوانین نقل کرا کے ’’قانون نامہ‘‘ جاری کیا اور قاہرہ اور اسکندریہ میں یورپین ججوں کا تقرر کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت شریعت کو قوانین کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت تھی لیکن سلطنت عثمانیہ نے ’’المجلۃ العدلیۃ‘‘ تیار کرا کے یہ ضرورت پوری کر دی تھی۔ اس کے باوجود اسماعیل پاشا نے مصر میں المجلہ کا نفاذ روک دیا۔ حالاں کہ مصر سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ یہ وہی اسماعیل ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ’’مصر یورپ کا ایک ٹکڑا ہے۔‘‘ ایک موقع پر اسماعیل نے اعتراف بھی کیا کہ یورپین طاقتیں انہیں نپولین کا کوڈ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور شریعت محاکم شرعیہ میں سمٹ کر رہ گئی جن کا دائرہ اختیار احوال شخصیہ تک محدود تھا۔ اس پر بھی استعمار نے بس نہیں کی اور اپنے پٹھوؤں کے ذریعہ محاکم شرعیہ کو بھی بدنام کر کے ختم کرانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ مفتی عبدہ نے محاکم شرعیہ کی اصلاح کر کے انہیں بچانا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئے بالآخر وہی ہوا جو ہونا تھا اور احوال شخصیہ بھی سول کورٹس کے دائرہ اختیار میں رکھ دیئے گئے۔ ۱۹۳۶ء میں مصر آزاد ہوا، ۱۹۴۲ء میں ایک نئے قانون مدنی (سول لاء)کا مسودہ تیار ہوا۔ عوام نے سخت احتجاج کیا کہ اس میں یہ تاکید نہیں ہے کہ جہاں قانون خاموش ہو وہاں شریعت سے رجوع کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہلے درجہ میں قانون دوسرے درجہ میں عرف عام اور تیسرے درجہ میں شریعت اور اس پر بھی یہ کہ شریعت میں سے وہ حکم ڈھونڈ کر نکالا جائے جو قانون وضعی سے میل کھاتا ہو۔ الجزائر میں فرانس نے براہِ راست اپنی عدالتیں قائم کیں اور اپنے قوانین نافذ کیے۔ ایک مغرب زدہ مسلمان خاتون کی مدد سے احوالِ شخصیہ کی بابت شرعی قوانین کو بھی توڑا مروڑا۔ الجزائر کی آزادی کے دن عبوری حکومت نے اعلان کیا کہ تمام وہ قوانین جو الجزائر میں نافذ ہیں ان پر بدستور عمل جاری رہے گا۔ باستثناء ان قوانین کے جو استقلال اور سیادت(Sovereignty)کو ٹھیس لگاتے ہیں۔ یہاں پر استاذ حمانی، جو حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ہیں، وزیرِ تعلیم کی موجودگی میں سوال کرتے ہیں کہ کیا استقلال اور سیادت کو ٹھیس لگانے والی اس سے بڑھ کر کوئی اور صورت ہو سکتی ہے کہ شریعت کو ٹھکرا دیا جائے اور فرانس جس کے خلاف جہاد ہوا، اسکے قوانینِ وضعیہ بدستور ملک میں باقی رہیں۔ یہی اثرات، خاص طور پر مصر کے ذریعے تمام شرب ممالک میں پھیلے۔ چنانچہ آج سب جگہ تقریباً یکساں حالت ہے۔ اس اندھیرے میں روشنی کی کرن حکومت لیبیا کا ۱۹۷۲ء کا اعلان ہے کہ حدود اور معاملات میں پوری طرح شریعت کا نفاذ ہو گا اور غیر شرعی قوانین سے ملک کو پاک کر دیا جائے گا۔ کرنل قذافی کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے عزم میں سچے ہیں۔