کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 31
یہ طرفہ تماشا ہے کہ مغرب کے جمہوری نظام کو اسلامیت کی سند مل گئی اور کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ اس کے مضمرات و عواقب کیا ہیں۔ آج بیشتر اسلامی ممالک میں قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ قسم کے ادارے قائم ہیں جو اپنی اصل اور ہیئت کے لحاظ سے خالص مغربی ادارے ہیں جو چند ممالک باقی رہ گئے ہیں وہ بھی اس راہ پر گامزن ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبر ممبر الا ما شاء اللہ علوم شرعیہ سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ بعض تو ہر لحاظ سے جاہل ہوتے ہیں۔ انتخابات میں تقویٰ سے زیادہ زیر کی اور عیاری کام آتی ہے۔ ایسی پارلیمنٹ اگر کوئی قانون شریعت کے موافق بھی بنائے تو وہ مستند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تشریعِ اسلامی اور تشریعِ وضعی (جو وحی سے مستفاد نہ ہو)دونوں میں آویزش کا اصل راز یہ ہے۔ یہ نکتہ خاصا جاذب توجہ ثابت ہوا اور اجتہاد کی شرائط اور مفتی کی اہلیت کی بابت اس سے قبل جو کچھ کہا گیا تھا اس نے اس سیاق میں نئی اہمیت حاصل کر لی۔ بات خوب آگے بڑھی یہاں تک کہ اسلامی روایت میں تشریحِ وضعی جیسی کوئی چیز ہی نہیں۔ مسلمان کے لئے یہ تصور ہی محال ہے کہ شریعت کے مصادر سے بے نیاز ہو کر کوئی قانون بنایا جائے۔ تشریع صرف شریعت کے علماء ورثۃ الانبیاء کا حق ہے۔ انہی کا یہ فرض ہے کہ شریعت کو جمود سے بچائیں اور نئے حالات میں اجتہاد کریں۔ یہ کوئی احتکار نہیں۔ اجارہ داری نہیں۔ نہ یہ کسی طرح بھی پاپائیت کے مترادف ہے۔ مسئلہ صرف اختصاص Specialization کا ہے۔ جس طرح ڈاکٹری اور علاج معالجہ ایک عوامی نمائندہ کے بس کی بات نہیں۔ یہی حال شریعت سے احکام کے استنباط کا ہے۔ عوام کو ایک ڈاکٹر یا ایک عالم شریعت پر جو اعتماد ہوتا ہے وہ اس کی مہارت فنی اور اخلاص کی بنا پر ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے مصالح مرسلہ اور حضرت عمر رضي الله عنہ کے اجتہاد کا ذکر کیا جس کی آڑ لے کر تشریعِ وضعی کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔ شیخ ابو زہرہ نے بالتفصیل اس کا جواب دیا۔ ایک صاحب نے اجتہاد کی بابت اقبال کے لیکچر کا حوالہ دیا۔ جس میں انہوں نے مغربی طرز کی پارلیمنٹ کو تشریع کا حق دینے کی راہ نکالی ہے۔ ان کا حوالہ بالکل برمحل تھا اور یقیناً ان کا رخ خاص طور سے میری طرف تھا۔ اس بات سے خوشی ہوئی کہ اب فکرِ اقبال عربوں میں عام ہے اور عرب علمی مطالعہ کے ذریعہ ان کے مرتبہ سے آشنا ہو گئے ہیں۔ لیکن میری نظر میں اقبال کا یہ موقف قابل قبول نہیں، مدت ہوئی پوری دلیلوں کے ساتھ میں اپنی اس رائے کا اظہار کر چکا ہوں۔ بالاتفاق اور بالاجماع اجتہاد کے جو شرائط منقول ہیں اور جو حد درجہ معقول بھی ہیں انہیں پورا کرنے سے ایک مغربی طرز کی پارلیمنٹ ہمیشہ قاصر رہے گی۔ ’’میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند‘‘
استاذ احمد حمانی، جو الجزائر کی المجلس الاسلامی الاعلی کے صدر اور جامعۃ الجزائر میں استاد ہیں، انہوں نے تشریعِ وضعی (جو وحی سے مستفاد نہ ہو)پر ایک نئے زاویے سے روشنی ڈالی اور تاریخ سے ثابت کیا کہ یہ وہ زہر ہے جسے مغرب کی استعماری طاقتوں نے ایک منصوبہ کے تحت مسلم ممالک میں پھیلایا۔ نتیجہ یہ کہ مغرب کی