کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 30
اقتصادی نظام بھی شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور کیا مثال کے طور پر مغربی بنکاری کے متبادل کوئی اور نظام مکمل یا ناقص ہی سہی پایا جاتا ہے؟)بہرحال یہ ’’طریقۃ الاتباع‘‘ یعنی شریعت کی پیروی کا طریقہ ہے۔ دوسری جگہ تو ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو شرعی حدود نافذ کرنا اور ’’ربوٰا‘‘ کے بغیر صنعت و تجارت کو فروغ دینا موجودہ دور میں ناقابل عمل، محال اور باعثِ شرم تصور کرتا ہے۔ ان میں سے جو کھلم کھلا شریعت کی مخالفت کی جرأت نہیں رکھتے وہ ’’التحیّل علی مقاصد الشریعۃ‘‘ یعنی حیلہ بازی سے شریعت کے مقاصد ضائع کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قابلِ لحاظ یہ بات ہے کہ سب نہیں تو بیشتر اسلامی ممالک کے دستور میں اسلام کو مملکت کے دین کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود غیر اسلامی مصادر سے قانون کا عمل برابر جاری ہے۔ سیدہ زینب الغزالی نے پوری صراحت سے کہا کہ اسلامی ممالک کے امراء و حکام اسلام سے صرف اتنا کام لیتے ہیں جس سے ان کی سیاست کو سہارا ملے۔ دوسروں نے یہاں تک کہا کہ شرک اور کفر کا قرآنی مفہوم نقش و نگارِ طاق نسیان بن چکا ہے۔ قرآن میں بار بار آیا ہے: ۱۔ ﴿مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ﴾ ۲۔ ﴿مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ ﴾ ۳۔ ﴿مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الفَاسِقُوْنَ ﴾ جو الله تعالیٰ كی نازل كرده شريعت كے مطابق معاملات كا فیصلہ نہ كرے تووہ گروہ کافروں کا ہے، ظالموں کا ہے، فاسقوں کا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہئے کہ شریعت کو نافذ نہ کرنا اور شریعت کو قانون سازی کا مصدر و مرجع نہ بنانا کفر ہے۔ اس کی رو س مسلمانوں کے جس ملک میں شریعت نافذ نہ ہو اسے مشکل ہی سے دار السلام کہا جا سکتا ہے۔ جو لوگ محض عقیدہ کی بات کرتے ہیں (اور اب تو شاطروں نے عقیدہ کو بھی نظریہ اور آئیڈیالوجی بنا کر رسوا کر دیا ہے)انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ عقیدہ کی حفاظت صرف شریعت کرتی ہے اگر شریعت نہ ہو تو عقیدہ یوں کہنا چاہئے کہ روح بغیر جسم ہے اور دنیا میں اس کا وجود غیر محقق اور غیر مشخص ہے۔ اس علمی اجتماع کا نظام یوں ترتیب دیا گیا تھا کہ مقالوں کی تعداد کم تھی اور صبح ۸ سے ایک بجے تک اور شام ۴ سے ۸ بجے تک بیشتر وقت تعقیب (اظہار رائے)اور مناقشہ کے لئے مخصوص تھا۔ ہمارے دفتروں میں ضابطہ کی خانہ پری جس سست رفتار سے ہوتی ہے اس کے باعث میں دو روز کی تاخیر سے پہنچا تھا۔ اس وقت مندرجہ بالا مباحثہ نقطہ عروج پر تھا۔ شروع سے حاضر نہ تھا اس لئے ایک اجلاس خاموشی سے سنتا رہا۔ جب یہ اندازہ ہو گیا کہ ایک نکتہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے تو میں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی کہ اصل مسئلہ اس دَور میں مسلم ممالک کے قانون ساز اداروں کی نوعیت اور ان کی صلاحیت کا ہے۔