کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 25
کی تعلیم کی قدر نہیں کرتے۔ آج بھی اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کو مصائب سے نجات مل جائے تو پھر معلمِ حقیقی اور حکیمِ حاذق صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے اصولوں پر عمل کیجیے تو پھر دیکھیے کہ کیسا راحت و آرام انسانیت کو ملتا ہے۔ ۸۔ مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں یعنی کھلم کھلا شور و غوغا ہونے لگے۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ عنقریب میری امت پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب لوگ مسجدوں میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرنے لگیں گے۔ سو تم ان کے پاس مت بیٹھنا اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں (نمازیوں)کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک روایت میں یوں بھی آیا ہے کہ مسجدوں کو بڑا مزیّن کیا جائے گا اور وہ ہدایت سے خالی ہوں گے۔ ۹۔ سب سے کمینہ، رذیل اور فاسق آدمی قوم کا قائد اور نمائندہ کہلائے۔ یعنی قوم کا سردار وہ مقرر ہو گا جو سب سے زیادہ فاسق کینہ ور اور بدکار ہو۔ نہ کہ متقی اور پرہیز گار شخص۔ ۱۰۔ آدمی کی عزت محض اس کے ظلم اور شر سے بچنے کے لئے کی جانے لگے۔ ۱۱۔ شراب نوشی عام ہو جائے گی۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ دین کی باتوں میں سب سے پہلے برتن کی طرح جس چیز کو الٹ دیا جائے گا وہ شراب ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نام رکھ کر اس کو حلال کریں گے۔ اُمّت کی ہلاکت کا سبب حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ارشاد فرمایا کہ جب یہ امت شراب کو مشروب کے نام سے، سود کو منافع کے نام سے، رشوت کو تحفہ کے نام سے، حلال کرے گی اور مالِ زکوٰۃ سے تجارت کرنے لگے گی۔ یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہو گا۔ گناہوں میں زیادتی اور ترقی کے سبب۔ ایک اور روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: