کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 23
السنّۃ والحدیث حافظ محمد سابق
(شعبہ شماریات)اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور
آفات و مصائب کیوں نازل ہوتے ہیں؟
ذیل میں ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تشریح دے رہے ہیں، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور پھر عذاب کی مختلف شکلوں کی پیش گوئی فرمائی۔ گذشتہ چند سالوں میں رب العالمین سے بے اعتنائی اور عدمِ تعلق کی بنا پر ہمارے اندر جن بے شمار اخلاقی اور روحانی خرابیوں نے گھر کیا آج ہماری الفراوی اور اجتماعی مشکلات اور مصائب انہی کا نتیجہ ہیں۔ ملک و ملت کے بیسیوں دیگر الجھے ہوئے مسائل کے علاوہ گذشتہ چند روز کے ٹریفک اور مکانات گرنے کے حادثات پھر سیلابوں کی تباہ کاریاں دیدہ عبرت وا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار (مدیر)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت پندرہ قسم کے کام کرنے لگ جائے گی تو پھر اس وقت ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یوں نقل کیا گیا ہے کہ طرح طرح کے عذابوں کا سلسلہ اس طرح لگاتار شروع ہو جائے گا جیسے کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پندرہ چیزیں کیا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۱۔ جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت بنا لیا جائے یعنی اس کی صحیح تقسیم کی بجائے خواہشات نفسانیہ کے مطابق تقسیم ہونے لگے۔
۲۔ امانت کو غنیمت سمجھا جائے۔
یعنی اس کو اپنے مصارف کے اندر لایا جائے اور اس کی ادائیگی اور حفاظت کی ذمہ داری محسوس نہ کی جائے۔
ایک روایت میں آپ کا ارشاد اس طرح بھی آیا ہے کہ جب امانت کو ضائع کیا جائے یا امانت اُٹھ جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ امانت کے ضائع ہو جانے یا اُٹھ جانے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: