کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 21
استحکام کے لیے مناسب مواقع اور فرصت بھی مہیا کرتی ہے ۔’’بتدریج‘‘ اس لیے کنذیست (زندگی، حیات)یک دم اپنے پورے کمالِ زیست کی بھی متحمل نہیں ہے، زندگی ہو کر جو اس قدر کمزور ہو کہ وہ اپنے بوجھ کی آپ بھی بہ آسانی متحمل نہ ہو، وہ اپنے رب کی ربوبیت کی کس قدر محتاج ہو گی یا اس حال میں تھام کر اسے جو ذات کریم چل رہی ہے، اس کا کتنا کرم ہے؟ اس کا اندازہ سبھی کر سکتے ہیں۔ یہ بھی خدا کا صفاتی نام ہے۔ غور فرمائیےً اس کی صفت اور اس کی ادا کا یہ صرف ایک پہلو ہے! خود ذات پاک کیا ہو گی؟ کون اس کا صحیح اندازہ کر سکتا ہے؟ ۸؎ اَلْعٰلَمِیْنَ (تمام جہان)عالم کی جمع ہے۔ ماسوی اللہ جو کچھ ہے، سب کو ’عالم‘ کہتے ہیں۔ ذرّوں سے لے کر مہیب پہاڑوں اور سیّاروں تک، حقیر سے مچھر سے لے کر ہاتھی اور اس سے بھی بڑے دیو ہیکل جانوروں تک سبھی جدا جدا عالَم ہیں۔ اس لئے عالمین کہا گیا ہے یعنی جتنے بھی عالم ہیں، ان سب کا جو روزی رساں اور رب ہے، اسے اللہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کے مفہوم میں ’مساوات‘ کا تصور بھی پنہاں ہے، لیکن سوشلسٹ کی مساوات کا نہیں، خدائی مساوات کا۔ کیونکہ اس میں یک گونۂ ’مساوات‘ بھی ہے اور بقدر فرق مراتب خصوصی امتیاز بھی۔ چیونٹی اور ہاتھی، ذرہ اور پہاڑ، رائی اور مہیب سیاروں کو ان کی طبعی حیات اور بقا کے لئے جتنا اور جیسا کچھ مل رہا ہے، یکساں نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ ۹؎ اَلْرَّحْمٰن (بڑی عنایات اور رحمتوں والا)خدا کی ربوبیت عامہ اور خاصہ اور اس کی یہ ساری کرم نوازیاں اور مہربانیاں، اس لئے نہیں ہیں کہ وہ بندوں کے ووٹوں سے خدا بنا ہے، لہٰذا بندوں کا حساب بھی اسے چکانا ہے، یا کسی نے اتنی کمائی کر لی ہے کہ بس اسے خرید ہی لیا ہے۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں! بلکہ اس لئے اور صرف اس لئے لطف و کرم کی یہ بارش کر رہا ہے کہ، اس کے لطف و کرم اور عنایات کے ’’بحرِ بے کنار‘‘ کا سیلاب تھمتا ہی نہیں۔ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ. جل جلاله. ۱۰؎ اَلرَّحِیْمِ (لازوال اور خصوصی عنایات والا)یعنی یہ رنگ جذباتی نہیں ہے، کیونکہ وہ اس سے پاک ہے، رحمت پر مبنی ہے، لازوال ہے اور خدا کی قدر دانی کا مظہر ہے۔