کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 19
﴿اَلْحَمْدُ۵؎ لِلّٰہِ ۶؎رَبِّ۷؎ الْعٰلَمِیْنَ۸؎٭ اَلرَّحْمٰنِ۹؎ الرَّحِیْم۱۰؎ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے نہایت رحم والا مہربان ہے ___________________________________ یہ بسم اللہ، اللہ نے خود پڑھی بھی ہے اور سکھائی بھی ہے۔ یہ دونوں باتیں اس کو سجتی ہیں، کیونکہ وہ اسی کا اہل ہے کہ وہ خود بھی اپنے گُن گائے۔ (کما اثنیت علی نفسک) ۵؎ اَلْحَمْدُ (ہر طرح کی حمد و ثنا)حسن و زیبائش کی دل ربائی کو دیکھ کر ایک جوہری کی زبان سے بے ساختہ جو ’واہ وا‘ نکل جاتی ہے یا بے حد و حساب اس کی کرم نوازیوں پر شکر و امتنان کے جذبہ سے سرشار ہو کر قلب و نگاہ اور زبان سے بے اختیار جو ’خراجِ عقیدت‘ ادا ہو جاتا ہے، کتاب و سنت کی زبان میں اسے ’حمد‘ کہتے ہیں۔ یہ طوطے کی رٹ، دِل غافل کی صدا، نگاہِ فریب خوردہ اور زبانِ بے ذوق کا ورد نہیں ہے، جیسا کہ دیکھنے میں آتا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، یہ دراصل دلِ خبیر، نگاہ نکتہ نواز، وارداتِ پرکیف، عشق ادا شناس، ذوق بیداغ اور زبانِ زمزمہ سنج کی ایک ادائے دل نواز ہے۔ لیکن ؏ ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تاپخشی حمد و ثنا کے سارے روپ اور انداز، خدا ہی کو سزا وار ہیں، کیونکہ یہ اس کا حق اور آپ کا فریہ ہے، وہ تمام صفاتِ کمال، خیر و برکت، جمال و جلال اور حسن و خوبی سے متصف، مالک، داتا اور سرچشمہ ہے، یہ سبھی کچھ اس کا ذاتی اور حقیقی ہے، باقی اور کہیں جتنا اور جیسا کچھ دیکھنے اور سننے میں آتا ہے، وہ سب اس کی ’’دین، عطا اور بخشش‘‘ ہے۔ بالکل عارضی اور مستعار ہے۔ اس لئے پیرایۂ مجاز میں دوسروں کی جتنی تعریف اور توصیف ہو جاتی ہے، وہ بھی دراصل اسی ذات پاک والا صفات کو ہی پہنچتی ہے، کیونکہ وہی ان کا اصل مالک، خالق اور وارث ہے، کون کوئی گھر سے لایا ہے بابا! حضرت امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے شرح اربعین حدیث ۲۶ کے تحت اللہ کی نعمتوں اور بندوں کے حمد و شکر پر جو روشنی ڈالی ہے، پڑھنے کے قابل ہے اور بڑی جاذب ہے۔ لکھتے ہیں: کہ امام ابو عمر والشیبانی فرماتے ہیں کہ: کوہِ طور کی ملاقات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ: الٰہی! نماز پڑھی، صدقہ خیرات کیا یا فریضۂ رسالت ادا کیا، وہ بھی تو تیری ہی توفیق سے کیا، میں نے خود کیا کیا، تو پھر میرے شکر کے کیا معنی؟ فرمایا: (بس یہ احساسِ ممنونیت ہی)میرا شکر