کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 18
کا یہ ایک ایسا بے پایاں اور بے کنار مظہر، الطاف و افضال کا ایک ایسا بے پایاں اور بے کارف مظہر، الطاف و افضال کا ایک ایسا ’حود فراموش‘ سمندر ہے، جہاں امتیاز نہیں، استثناء نہیں، حد نہیں، بس نہیں، محرومی اور تشنگی کا کوئی ذکر نہیں، اپنے اور پرائے کی بات نہیں۔ ساقی کا یہ ساغرِ رحمت‘ ازل سے گردش میں ہے اور تا ابد رہے گا یہ سبھی کچھ کسی کے ’استحقاق‘ کی بنا پر نہیں ہو رہا، محض اس کے کرام کا نتیجہ ہے۔ کہتے ہیں رحمٰن اور رحیم مبالغے کے صیغے ہیں! ٹھیک ہے، ہیں پر یہ بات ہمارے حساب سے ہے، جہاں تک خدا کی بات ہے وہاں یہ مبالغے، ابتدائیہ سے بھی درے رہ جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی پیرایۂ بیان ’صفات کمال‘ کو کما حقہ محیط نہیں ہے اور نہ اس سے وہ وافر ہو سکتا ہے۔ ہاں اس معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ: ایک شے کے خاصہ کی طرح اس سے اس کی رحمت کا ظہور بے حد و حساب اور بے ساختہ ہو رہا ہے۔ بیساختہ کہنا بھی ایک پیرایۂ بیان ہے۔ وہ وہ ’بے قابو‘ بھی نہیں ہے کیونکہ وہ خود ’قدیر‘ ہے۔ ۴؎ الرَّحِیْم (خصوصی اور لازوال فضل و کرم اور عنایت والا)یہ بھی اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جو اس امر کا غمّاز ہے کہ: گو اس کی خالقیّت اور ربوبیّت عامہ میں کوئی امتیاز نہیں، تاہم جن لوگوں کو اس سے خصوسی تعلق ہے وہ ان کا قدر دان بھی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔ یہاں ’حیاتِ طیبہ‘ کی دولت کو ان کے لئے ارزاں کر دیتا ہے اور وہاں (اگلے جہاں)خوف و حزن کی گھڑیوں میں ان کا خصوصی مونس اور غمگسار بھی ہو گا۔ الرحیم کے لفظ کی یہ خصوصی ہیئت اس امر کی بھی غماز ہے کہ رحمت و رافت کی یہ بارش وقتی اور جذباتی نوعیت کی نہیں ہے، کیونکہ وہ اس سے پاک ہے، بلکہ ذاتِ سرمدی کی لازوال عنایات کا یہ ایک غیر فانی کرشمہ ہے کیونکہ یہ اس کا خاصہ ہے، دنیا کی ہر فانی حکومت کا بھی یہی دستور ہے کہ گریڈ دے کر پھر اس کو ڈی گریڈ نہیں کرتی، ہاں اگر وہ خود اٹھا کر اسے پھینک دے تو یہ اور بات ہے۔ دو دلوں کے درمیان، پائیدار اور پرکیف تعلق کے لئے ضروری ہے کہ وہ ’پاک محبت، نیک خواہشات اور حسین توقعات‘‘ کی اساس پر قائم ہو، اس میں نباہ بھی ہے اور کیف بھی۔ اس لئے لفظ ’’اللہ‘‘ کے ساتھ ’’الرحمٰن الرحیم‘‘ کا اضافہ کیا گیا تاکہ آپ اس سے ڈریں نہیں، اس کی طرف لپکیں۔ کیونکہ وہ نہایت ہی پیار کی شے ہے جہاں اس سے ڈرنے کا ذکر ہے۔ وہ بلا سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ محبوب کے روٹھ جانے کے احساس کا نام ہے یا اس کے جمال و جلال کی ہیبت کی بات ہے۔