کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 17
﴿الرَّحْمٰنِ۳؎ الرَّحِیْمِ۴؎ (جو)نہایت رحم والا مہربان (ہے) ________________________ بھی ہے اور قرآنی علم و عمل (صراط مستقیم)کے حصول کے لئے ایک دعا اور مناجات بھی۔ اس میں پہلے ہدیۂ عقیدت، پھر عہدِ عبودیت اور آخر میں توفیق عمل کے لئے دعا کرنے کا ایک سلیقہ القا کیا گیا ہے۔ یہ تدریج فطرت کے عین مطابق ہے۔ ۲؎ بِسْمِ اللّٰہ (اللہ کے نام کے ساتھ)وہ مبارک نام جو نام کی حد تک بھی سراپا برکت ہو اور حصولِ برکت کے لئے ایک پاک اور مؤثر ذریعہ بھی، تو وہ صرف خدا کا نام نامی ’’اللہ‘‘ ہے۔ یہ خدا کا اسم ذاتی کہلاتا ہے، باقی سب تعارفی اور صفاتی نام ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ: ہر بھلا کام ’بسم اللہ‘ پڑھ کر کیا کرو، ورنہ برکت جاتی رہے گی۔ بھلا قرآن حکیم سے بڑھ کر کوئی اور چیز بھی بھلی ہو سکتی ہے بلکہ وہ تو خود ہی مبارک کتاب ہے۔ اسے بھی خود اللہ تعالیٰ نے ’بسم اللہ‘ سے شروع کیا ہے تاکہ اس کی برکتیں دنیا کے لئے عام اور آسان ہو جائیں اور دنیا بھی اس ’طرزِ آغاز‘ کے مطابق، اپنے آغازِ کار میں ایسا ہی کرے۔ اس نامِ نامی میں بڑی برکتیں ہیں، کیونکہ وہ ’’اللہ‘‘ ہے۔ دنیا میں اور بھی مبارک نام ہو سکتے ہیں اور ہیں لیکن نام کی حد تک وہ ’برکتوں اور رحمتوں‘ کے حصول کا ذریعہ بھی ہو؟ اللہ کے نام کے سوا اور کوئی نہیں، بخدا! اور کوئی نہیں! اس میں راز یہ ہے کہ دنیا محسوسات پر جان چھڑکتی ہے، جو اس سے ماوراء ہو، اسے وہ مان تو سکتی ہے لیکن اس پر قناعت نہیں کر سکتی۔ چنانچہ جب وہ خدا کو محسوس اور مشہود نہیں پاتی تو ’وساطتوں‘ اور وسیلوں کے چکروں اور بھول بھلیوں میں پڑ کر خدا سے دور تر ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ’بسم اللہ دے کر بتایا کہ: اگر خدا تمہیں دکھائی نہیں دیتا تو اس کا نام تو تمہارے پاس ہے! پھر فکر کاہے کا۔ اور ادھر ادھر دیکھنے کے کیا معنی؟ الغرض: بسم اللہ، اس کی وحدانیت اور یکتائی کا اعلان بھی ہے اور اس کے ’خونِ یغما‘ سے فیض پانے کا ایک حسین ذریعہ بھی۔ سیر الی اللہ، تعلق باللہ اور اعتماد علی اللہ کا اظہار بھی ہے اور معیتِ الٰہی کے احساس اور تصور سے لبریز زمزمہ بھی۔ ۳؎ اَلرَّحْمٰنِ (نہایت رحم والا)یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی (تعارفی)نام ہے، فیضان رحمت و رافت