کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 15
؎ تن ہمہ داغ و اغ شد پنبہ کجا کجا نہم اخلاص ہو تو بساط سے بڑھ کر وعدہ نہیں کیا جا سکتا، جب قوم کا استحصال منظور ہوتا ہے تو سبز باغ دکھا کر قوم کی مت مار دیتے ہیں، بعد میں جب ’’وعدوں کا کمبل‘‘ لپٹ جاتا ہے تو چھڑائے نہیں بنتی۔ یہی مشکل آج برسرِ اقتدار گروہ کو درپیش ہے۔ بات بات میں ان کا ہر کارکن یہی کہتا ہے کہ غریبوں اور مزدوروں کا استحصال نہیں کرنے دیا جائے گا لیکن جب عوام نے ان کو غور سے دیکھا تو ’’تھوک کا استحصال‘‘ کرنے والی خود یہی پارٹی نکلی۔ روٹی کی بات چلی، تو عوام نے سوچا، حلوے مانڈے ملیں گے۔ جب وقت آیا تو ’’نانِ جویں‘‘ بھی بصد مشکل ہاتھ آئی۔ کپڑے کا رونا روئے تو آواز آئی، فکر نہ کرو، بس ہم آگئے۔ لوگوں نے سمجھا کہ اب بوسکی پہننے کو اور لطیف بستر حاصل ہوں گے، جب بازار کا رخ کیا تو تن ڈھکنے کو کھردرا کھدر بھی ہاتھ نہیں ملاتا۔ مکان کی کسر رہ گئی تھی جن کو کوٹھیوں کے خواب دکھائے گئے تے اب ان کے جھونپڑوں پر بلڈوزر چلا کر ان کی یہ آخری حسرت بھی پوری کی جا رہی ہے۔ دنیا میں بڑے فراڈ سنے ہیں لیکن اپنے عوام اور قوم سے جو فراڈ ان لوگوں نے روا رکھا ہے، شاید وباید۔ امن کے ان داعیوں نے غنڈوں جیسے درندے شاید پال رکھے تھے کہ جو جہاں سے کراہنے کی آواز سنائی دیتی ہے بھوکے بھیڑیے کی طرح ان مجبوروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ حکمرانوں سے کوئی جا کر کہے کہ: کیا قوم نے اسی لئے آپ پر اعتماد کیا تھا۔ اتنے بڑے آدمی ہو کر کیا آپ لوگ بھی اپنے بے گناہ قوم سے جھوٹے وعدے کیا کرتے ہیں؟ اُف۔ باقی رہی قرآن حکیم کی بے حرمتی؟ سو ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ قرآن کی صحت، طباعت کے لئے تو ضرور مصر ہیں، لیکن یہ کہ قرآن ان سے صحیح بات بھی کہے؟ اسے اس کی وہ اجازت نہیں دے سکتے۔ دراصل قصور عوام کا ہے، فراڈ کرنے والے فراڈ کرتے ہی رہے ہیں اگر کوئی دھوکہ کھا جائے تو ان کی بے خبری ان کو نتائج بد سے کبھی بچا نہیں سکی۔ ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ﴾