کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 13
سو گن پولیس کی تنخواہوں کے لئے ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک یہ ضروری ہے کہ پولیس کی تنخواہیں، ان کی گزر اوقات کے لحاظ سے مناسب مقرر کرنا چاہیں۔ تاکہ وہ ایمان داری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں، بحالات موجودہ ان سے ’خیر‘ کی توقع رکھنا عبث ہے، وہ تو اب اپنے منصب اور عہدہ کا کاروبار ہی کریں گے کیونکہ اس کے سوا ان کے لئے اور کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہے اور ہم پولیس سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ آپ اپنے عہدہ اور منصب کی لاج رکھیے، خدا ضرور آپ کی لاج رکھے گا۔ یقین کیجئے! وقار بھی سلامت رہے گا اور روٹی بھی باوقار ملے گی۔ ان شاء اللہ۔ قومی اسمبلی کا یہ بہت بڑا ضیاع ہے پیپلز پارٹی کے رکن رانا تاج احمد نون نے یہ شکایت کی کہ بعض اخبارات نے یہ لکھا ہے کہ خصوصی اجلاس میں حلف اٹھانے کے دوران میں نے ایوان میں پہلی بار بات کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایوان کا رکن ہوں اس کے باوجود اخباری نمائندے مجھے نہیں پہچانتے، اس کا سبب خود ہی بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ چونکہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اخباری نمائندے یہی سمجھتے ہوں کہ میں پہلی بار بولا ہوں، اسپیکر چوہدری فضل الٰہی نے برجستہ جواب دیا، ممکن ہے اخباری نمائندے ڈیڑھ سال میں پہلی بار ایوان میں آئے ہوں۔ اس پر ایوان میں زبردست قہقہہ پڑا۔ (جسارت ۴ جولائی) ہم نے اپنے ادارتی کالموں میں بارہا اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لئے کچھ شرائط ہونا چاہئیں۔ تعلیمی صلاحیت، سیاسی خدمات، فکر و نظر کے اعتبار سے اس کا کوئی قابلِ ذکر مقام وغیرہ جیسی صلاحیتوں کے لئے ان کو اپنا کوئی سرٹیفکیٹ مہیا کرنا ضروری ہو۔ ورنہ قومی امنگوں، وقت، کارکردگی اور پیسے کا ضیاع ہی ضیاع ہو گا۔ رانا تاج احمد تو اتفاق سے زد میں آگئے ہیں ورنہ ان اسمبلیوں میں اکثریت ’رانا تاج احمد‘ جیسے معزز رکنوں کی ہے۔ ہاتھ کھڑا کرنا جانتے ہیں، بہتوں کو متعلقہ اور زیر بحث بل کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کیا بلا ہے۔ ؎ خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں خبر نہیں کہ روش بندہ پروری کیا ہے ہمارے عوام ابھی عوام ہی ہیں، کسی کو پرکھنے کے معیار ان کے نجی ہیں، قومی نہیں ہیں۔ عموماً