کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 12
باوجود جماعت اسلامی نے ان سے کوئی سبق نہیں لیا۔ غلطی دوسروں کی ہوتی ہے ساکھ اس کی بھی گر جاتی ہے۔ جن جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے کھوکھلے ہوتے ہیں ان سے اتحاد کی پینگیں بڑھانا سیاسی لحاظ سے کچھ دانشمندانہ اقدام نہیں ہوتا۔ پولیس ہمت کرے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا ساہیوال ضلعی پولیس نے گذشتہ چھ ماہ میں ستاون لاکھ روپے کی مالیت کی مسروقہ اشیاء برآمد کیں۔ (نوائے وقت) پولیس با اصول اور مخلص ہو تو قوم گھر کے دروازے کھلے چھوڑ کر سو سکتی ہے، زیر دست زبردست کے چرکوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ملک کو فساد اور ہنگاموں کی وباء سے سلامت رکھا جا سکتا ہے۔ اگر ان کے سینوں میں ’’دلِ مسلم‘‘ بھی آباد ہو تو وہ ’’کتاب و سنت اور قرآن علم و عمل‘‘ کی بہتر پاسبان بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ساہیوال ضلعی پولیس کی اس کارکردگی پر بہرحال ہم ان کو مبارک دیتے ہیں۔ پولیس ایک عظیم ادارہ ہے جس کے بغیر ملکی نظم و نسق کو بحال رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن جب ان کو روگ لگ جائے تو یہ بجائے خود ’’عذاب‘‘ ثابت ہوتی ہے۔ پولیس کی سب سے بڑی کمزوری، پیسہ اور حکمرانوں کی خوشنودی کا حصول ہے۔ جو پولیس افسر پیسہ کے لالچ میں پڑ جاتے ہیں، وہ فساد ہنگاموں اور جرائم کی آبیاری کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر ان کے وارے نیارے نہیں ہوتے۔ حکمران ٹولے کی دل جوئی کے لئے اپنے کو استعمال کر کے جس طرح وہ ذلیل ہو جاتی ہے وہ شاید اس کی گراوٹ کی آخری حد ہو سکتی ہے۔ چند عارضی حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے پوری قوم کے جمہوری حقوق کو پامال کر گزرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب دوسرا گروہ برسرِ اقتدار آتا ہے وہ اس کی ضرور ہی خبر لیتا ہے۔ اب تو پولیس نے خاص کر جس طرح حالات پیدا کر ڈالے ہیں، اس کی وجہ سے اس کا مستقبل حد درجہ تاریک نظر آتا ہے، اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہ ان کے ہاتھوں جن مظلوموں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، کل وہ ان سے کیا معاملہ کریں گے۔ کاش پولیس! چند ایک راج دلاروں کی خاطر اپنے مقام و مرتبہ کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کر سکتی۔ ہم نے سنا تھا کہ اب کے بجٹ میں پولیس کے لئے خاصی رقم مختص کی گئی ہے لیکن معلوم ہوا کہ، وہ پولیس کی تنخواہوں کا معیار بلند کرنے کے بجائے اس کی نفری بڑھانے اور پولیس کی ایک