کتاب: محدث شمارہ 29 - صفحہ 10
؎ جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پہ نہ ڈال اے روبہ زار و نزار (ص ۹۔۱۱)
معلوم ہوتا ہے کہ مرزائیوں نے متوازی تیاری ایسی کر لی ہے کہ اگر حکومت کچھ نہ کر سکی تو یہ خود کچھ کر کے دکھا ڈالیں گے۔ بہرحال یہ حکومت کا فرض ہے کہ اس کا جائزہ لے، ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟
(ق)احمدیو! تیار رہو شاید تم کو قربانیاں دینا پڑیں۔ ص ۱۴
خدا جانے کس بل بوتے پر ’چور‘ الٹا کوتوال کو ڈانٹ رہے ہیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے، اسے بار بار سوچ!
مرزائیوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، بات صاف صاف بتائیں، مدعی نبوت مرزا صاحب کو نہ ماننے والے کافر ہیں یا مسلم؟ اگر کافر ہیں تو پھر بھی آپ ’’مسلم اقلیت‘‘ اگر وہ کافر نہیں ہیں تو پھر یہ نبوت کی وہ کون سی قسم ہے جس کا اقرار اور انکار یکساں ہے؟ اگر وہ کافر نہیں ہیں تو پھر آپ خود بخود کافر ٹھہرے، اقلیت کوئی الزام نہیں۔ آ پ کا اصلی مقام ہے۔
کیا مرزائیوں میں تقیہ بھی جزوِ ایمان ہے۔ اگر نہیں تو پھر جرأت سے کام لیں اور تسلیم کریں کہ آپ اقلیت میں ہیں۔
جناب مرزا ناصر نے ضمناً اپنی وہ خدمات بھی گنوا دیں جو الیکشن کے دنوں میں پیپلز پارٹی اور صدر بھٹو کے لئے انجام دیں۔
ہم مانتے ہیں اور پیپلز پارٹی کو بھی آپ کی خدمات کا احساس ہو گا۔ پیپلز پارٹی مسلمانوں کے مقابلے میں قادیانیوں کو جس طرح لفٹ دے رہی ہے اس کا احتساب تو بالآخر مسلمان کسی وقت ضرور کریں گے لیکن مرزائیوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان کی یہ خدمات کچھ نرالی نہیں ہیں۔ انہوں نے انگریز جیسے اسلام دشمن کی وہ خدمات انجام دیں کہ رہے نام اللہ کا۔ ان کے بعد ملک میں جو بھی بر سرِ اقتدار آیا ان کی چاپلوسی اور جاسوسی کر کر کے جس طرح اعتماد حاصل کرتے رہے، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اگر آپ کی خانہ ساز نبوت اور مسلمانی یہی ہے جس پر آپ کو ناز ہے تو آپ کو مبارک ہو اس سے وہ کافر ہی بہتر جو باضمیر ہو۔ اور جس کو آپ ’خدائی نشان‘ قرار دے رہے، وہ نشانِ رحمت نہیں، استدراج ہے، ایک دن آئے گا جب آپ اس کمبل کو اتار پھینکنے کی کوشش کریں گے لیکن یہ کمبل آپ کو چھوڑے گا نہیں۔ ان شاء اللہ۔