کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 9
صدمہ ہے۔ تمام پیغمبر مرد تھے، خدا موٴنث ہوتا تو پہلے حوا علیہا السلام کو جنم دیتا اور اس کی پسلی سے آدم علیہ السلام کو پیدا کرتا۔ مردکو حاکمیت و امامت دینے والا خدایقینا مذکر ہے جس نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کی اور اس کی پسلی سے عورت کو پیدا کیا۔“ (روزنامہ نوائے وقت:کالم ’فتنہ‘ 2/اپریل 2005ء) ٭ روزنامہ پاکستان میں اسی موضوع پر شائع شدہ ایک مضمون میں سیکولر دانشور ڈاکٹر مہدی حسن نے بھی اسی بات پر اعتراض کیا ہے: ”مذہب میں مردوں کی بالا دستی کا معاملہ صرف اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ عیسائیت ، یہودیت اور اسلام تینوں الہامی مذاہب میں مردوں کو واضح برتری حاصل ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مذاہب جس دور میں ’متعارف‘ کرائے گئے وہ مردوں کی بالا دستی کے ادوار تھے۔“ (3) پیش نظر واقعہ میں بھی اصل مسئلہ صرف عورت کی امامت کا نہیں ہے کیونکہ عورت کی عورتوں کے لئے امامت کی تو اسلامی شریعت میں بھی اجازت پائی جاتی ہے، بلکہ اصل امر عورتوں کا مردوں کی برتری کو چیلنج کرنا ہے۔ کیونکہ اسلام نے عورت کو مساجد کی بجائے گھروں میں نماز ادا کرنے کی زیادہ ترغیب دی ہے۔ معاشرے میں ان کی زیادہ چلت پھرت کو ناپسند سمجھنے اور ان کی پُرکشش آواز وزینت کو چھپانے کی غرض سے اسلام نے عورت کے لئے اذان بھی منع قرا ردی ہے اور مردوں کے برعکس ان کے لئے مردوں کے ساتھ باجماعت نماز بھی ضروری نہیں ٹھہرائی۔ جہاں تک خواتین کی مساجد کا تعلق ہے تو ماضی کے برعکس اس دور میں یہ کاوشیں بھی آئے روز بڑھتی جارہی ہیں ۔ ہندوستان میں مالا بار کے علاقے میں مسلم خواتین اپنی علیحدہ مسجد بنا رہی ہیں ، چینی حکومت کے قائم کردہ ادارے ’اسلامک ایسوسی ایشن آف چائنا‘ کے زیر اہتمام چین میں بھی ایک مسجد النساء کا افتتاح ہوچکا ہے جس میں حجاب اور نقاب کی پابند جن میھا نامی عورت امامت کراتی ہے۔ ایسے ہی ہالینڈ کے دار الحکومت ایمسٹرڈیم میں بھی خواتین کی ایک مسجد کا افتتاح کیا جا چکا ہے لیکن اس کا کیس وہاں کی عدالت میں چل رہا ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی مساجد کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا البتہ عام مساجد کے ساتھ خواتین کی نماز کے لئے مخصوص حصے ضرور موجود رہے ہیں اور اب بھی پاک و ہند کے بعض مخصوص مسالک کے علاوہ خلیجی ممالک میں بکثرت اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسے مقام پر خواتین اپنی