کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 8
(2) امریکہ میں جن دنوں یہ واقعہ ہوا، انہی دنوں سے امریکی پریس میں یہ بحث اسلام کے علاوہ دیگر الہامی ادیان مثلاً یہودیت وغیرہ سے بھی جاری ہے۔امریکہ میں مقیم خاتون کالم نگار محترمہ طیبہ ضیا نے اسی پس منظر کو روزنامہ نوائے وقت میں تفصیل سے پیش کیا ہے :
”ہر الہامی مذہب میں عبادت کی امامت مرد کرتا ہے۔ یہودیوں کے گرجا گھروں میں عبادت زیادہ تراجتماعی طورپرادا کی جاتی ہے جس کے لئے کم ازکم 10مردوں کا ہونا ضروری ہے، ان کا امام تورات کی اصل زبان عبرانی میں عبادت کراتا ہے، مرد اور عورتیں الگ الگ ہوتے ہیں ، عورتوں کے لئے عبادت کا اہتمام بالکونی میں ہوتاہے۔عبادت میں اُنہیں برہنہ سررہنے کی اجازت نہیں ہے اور عورتیں سر ڈھانپ کر ہی عبادت میں شریک ہوسکتی ہیں ۔
عیسائیت بالخصوص کیتھولک فرقہ کے پہلے امام سینٹ پال بھی بائبل میں عورتوں کو شرم وحیا کی تعلیم دیتے ہیں اور اُنہیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ وہ عبادت گاہوں میں خاموشی اختیار کریں ۔عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے ۔ وہ جو کچھ معلوم کرنا چاہتی ہے ، گھر جاکر اپنے شوہر سے معلوم کرے۔
کچھ عرصہ قبل امریکہ میں چہ مردوں اور چہ عورتوں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جسے بائبل کی غلطیاں درست کرنے کا فرض سونپا گیا تھا۔ ان دانشوروں نے ماڈرن طبقہ کیلئے عورت و مرد کی مساوات کے نقطہ نظر سے بائبل میں ترمیم کی۔ اس طبقہ کو خدا کے مذکر ہونے پر بھی اعتراض ہے۔ امریکہ سے پھوٹنے والی اس وبا نے بھی نام نہاد مسلم دانشوروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بائبل میں جہاں خدا کے لئے He، لارڈ یا فادر کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہاں ’گاڈ‘ کہنے پر گزارا کیا جارہا ہے۔ سینٹ پال کے جملے کہ”بیویوں کو اپنے شوہر کی اس طرح اطاعت کرنی چاہئے جس طرح خدا کی اطاعت کرتی ہیں ۔“ کو بھی حذف کردیا گیا ہے۔
یہودیوں کے ہاں لبرل طبقہ نے بھی اپنی مرضی کی تورات ترتیب دے رکھی ہے۔ جہاں خدا کو مذکر ظاہر کیا گیاہے، اس کی بجائے ’ابراہیم کا خدا، اسحق کا خدا، یعقوب کا خدا‘ استعمال کیا جارہا ہے۔ جہاں ’خدا کے بیٹے‘ کا تذکرہ آتا ہے، وہاں ’خدا کی ا ولاد‘ لکھا جاتا ہے۔ اس طرح مغرب کی لادین، مادر پدر آزاد عورت نے مرد کی تخلیق کے حسد کا غبار نکالا۔ عورت کی امامت کے حالیہ فتنہ کے پیچھے بھی اہل کتاب کے اسی طبقہ کا ہاتھ ہے۔
خدا کے مذکر ہونے کا اعتراض کرنے والوں کو جیزز (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )کے مرد ہونے پربھی