کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 79
(8) حُجیرہ سے مروی ہے کہ حضرت امّ سلمہ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں ۔ (مصنف عبد الرزاق: 5082، دار قطنی: 1/405، قال النووی: سندہ صحیح) (9) عن ابن عباس قال: توٴم المرأة النساء تقوم في وسطهن ”ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت کروا سکتی ہے، لیکن وہ عورتوں کے درمیان کھڑی ہوگی۔“ (مصنف عبدالرزاق:ج3/ص140 ، رقم:5083) (10) عن ابن عمر أنه كان يأمر جارية له أن توٴم النساء في ليالي رمضان ”ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنی ایک لونڈی کو حکم دیا کرتے کہ وہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرائے۔“ (المُحلّٰى: 3/137) علامہ شمس الحق عظیم آبادی دار قطنی پر اپنی شرح التعليق المُغني میں فرماتے ہیں : وهذه الروايات كلها تدل على استحباب إمامة المرأة للنساء في الفرائض والنوافل وهذا هو الحق وبه يقول الشافعي والأوزاعي والثوري وأحمد وأبو حنيفة وجماعة رحمهم الله (ج1/ 405) ”یہ تمام احادیث فرضی اور نفلی نماز میں عورت کی امامت کے پسندیدہ ہونے کی دلیل ہیں اور یہی موقف درست ہے، اسی کو امام شافعی، احمد بن حنبل، ابو حنیفہ (ائمہ ثلاثہ) اور امام اوزاعی ، ثوری اور اہل علم کی ایک جماعت رحمہم اللہ نے اختیار کیاہے۔“ احناف کے ہاں عورت کی امامت کا زیادہ رواج نہیں ہے، جہاں تک احناف کے موقف کا تعلق ہے تو وہ اس کی حرمت کی بجائے کراہت٭ کا موقف رکھتے ہیں اور نمازِ جنازہ وغیرہ میں اس کے قائل ہیں ۔ پھر احناف میں بعض اہل علم نے اپنے اس موقف کے بارے میں بھی نظر ثانی کرکے عورت کی عورتوں کے لئے امامت کا بلا کراہت جواز ثابت کرنے پر دلائل پیش کئے ہیں ۔ اس سلسلے میں کراچی سے ’فقہ اسلامی‘ کے نام سے شائع ہونے والے وقیع فقہی ماہنامے میں مفتی محمد رفیق الحسنی کا تفصیلی مضمون بہ تکرار شائع ہوچکا ہے، جس میں انہوں نے عورتوں کی امامت کے جواز کا موقف اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یاد رہے کہ اس مجلہ کے کارپردازان بریلوی مکتب ِفکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (دیکھئے شمارھ اکتوبر 2003ء و اکتوبر 2004ء )