کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 77
فقہ واجتہاد حافظ حسن مدنی عورت کی امامت کی شرعی حیثیت گذشتہ ماہ ’اشراق‘ میں عورت کی امامت کے جواز کے بارے میں مضمون شائع ہونے پر اس کی نقول مختلف اہل علم کو بھجوائی گئیں اور 15/مئی کو مجلس التحقیق الاسلامی میں چند اہل علم کا اسی موضوع پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔اس کے بعد فاضل علماء کرام نے ادارۂ محدث کواپنے مضامین ارسال کئے جو اس شمارے کی زینت بن رہے ہیں ۔ راقم نے بھی اسی موضوع پر اُنہی دنوں ایک مضمون تحریر کیا تھا،کبار علماء کرام کے مضامین شائع ہونے کے بعد تکرار سے بچنے کی خاطر میں نے اب ان مباحث کو مختصرکرکے حواشی میں دیگر اہل علم کے مضامین کے متعلقہ مباحث کی طرف اشارہ کردیا ہے ۔چونکہ اکثر مضامین میں یہ بحثیں بار بار آ گئی ہیں ، اس لئے ان حواشی کی مدد سے قارئین کا ان کی طرف رجو ع کرنا بھی آسان ہوگا۔اس کے باوجود بعض جگہ باقی رہ جانے والی تکرار کو اُمید ہے، قارئین نظر انداز فرمائیں گے۔ (ح م) جمہور اہل علم کے نزدیک عورت، دیگر عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔ اس سلسلے میں کتب حدیث میں اُمہات المومنین: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ اور حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی امامت کا تذکرہ ملتاہے، جس کی تفصیلات سے ان کے طریقہ امامت پر بھی روشنی پڑتی ہے : (1) عن ريطة الحنفية قالت أمتنا عائشة فقامت بينهن في الصلوة المكتوبة (سنن دار قطنی، باب صلوة النساء جماعة وموقف إمامهن: ج1/ص404 ومصنف عبدالرزاق :ج3/ص141 حدیث نمبر:5086) ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہماری امامت کرائی اور آپ فرض نمازوں کے درمیان میں عورتوں کے درمیان کھڑی ہوئیں ۔“ (وقال النووي: سندہ صحيح. التعليق المغني) (2) عن عطاء عن عائشة أنها كانت توٴم النساء تقوم معهن في الصف (مصنف ابن ابی شیبہ:ج1/ ص 430،رقم4954 ) ”عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کرایا کرتی تھیں اور آپ ان کے ساتھ ہی صف میں کھڑی ہوتیں ۔“