کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 7
بھی ضربِ کاری لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دنیا اس وقت دین سے وابستہ اور دین سے بیزار یا دوسرے لفظوں میں الہامی احکامات کے پیروکار اور انسان کے وضع کردہ قوانین کے علمبردار دو طبقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ان دونوں طبقوں میں بحث ومباحثہ کے کئی ایک موضوعات ہیں لیکن حالیہ واقعہ معاشرے میں عورتوں کے کردار اور مرد و زن کی دونوں صنفوں کے مابین نام نہاد مساوات کے تناظر میں پیش آیا ہے۔ اس واقعہ کے پس پردہ مقاصد میں عورتوں کی مادر پدر آزادی کی حمایت کرنا اور ان پر مردوں کو حاصل بعض انتظامی امتیازات کا انکار کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مقصد کے لئے جن خواتین کو منتخب کیا گیا، ان کی شناخت اور کردار اسی حوالے سے ماضی میں متنازعہ رہا ہے۔ ایسے ہی اس واقعہ کا انتظام وانصرام ’پروگریسو مسلم یونین‘ اور ’مسلم ویمن فریڈم ‘ نامی پاکستانی تنظیموں نے کیا تھا۔
(1) نیویارک میں جن دنوں یہ ڈرامہ سٹیج کیا گیا، اس سے صرف ایک ہفتہ قبل اسی شہر میں ’بیجنگ + 10 کانفرنس ‘ کے نام سے چھٹی خواتین کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔یہ کانفرنس 28فروری سے11 مارچ تک نیویارک میں منعقد ہوئی۔ جس میں ماضی کی کانفرنسوں کی طرح اسلام میں خواتین کے حقوق کے بارے میں جارحانہ جذبات کا اظہار کیا گیا :
کویتی ہفت روزہ المُجتمع کی رپورٹ کے مطابق کانفرنس کے کل دس سیشن ہوئے جن کا مرکزی موضوع ’جنس اور مسلمان عورتوں پر ڈھایا جانے والا ظلم‘ تھا۔ بطورِ خاص دوسرے سیشن کا عنوان ہی یہ تھا کہ اسلامی معاشرے میں عورتوں پر ظلم وجور کا خاتمہ کیسے کیا جاسکتاہے؟ اس سیشن کا کلیدی خطاب افغان اباحیت پسند خاتون سکینہ یعقوبی کا تھا جس نے اس امر پر اصرار کیا کہ مسلمان عورتوں کو قرآنِ مجید کی تفسیر خود کرنا سکھایا جائے تاکہ وہ عورتوں کے حقوق از خود جان سکیں ۔
کانفرنس کے اعلامئے کی چوتھی دفعہ میں کہا گیاکہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کو مکمل طور پر ختم کیا جائے، چاہے قوموں اور ملکوں کے رسوم ورواج اور دینی عقائد کچھ بھی ہوں ۔صنفی مساوات کے نام پر مردوعورت میں ہر طرح کی تفریق کو ختم کیا جائے اور مردوزن کو ہر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے کا بھرپور اختیار دیا جائے۔ (المجتمع: 2/اپریل 2005ء)