کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 6
مساویانہ سلوک کا خاتمہ ہے۔ میری جدوجہد عورتوں کے خلاف تشدد آمیز رویوں ، عورتوں کو دوسرے درجے کا انسان سمجھنے اور زدو کوب کے خلاف ہے۔“ مفسرین پر الزام عائد کرتے ہوئے ڈاکٹر امینہ لکھتی ہے۔ ” اگر آپ قرآنی آیات پر تحقیقی نظر ڈالیں تو اس میں عورت مرد کی مساوات اور آزادی خیال کے امکانات واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔بعض جگہ صراحت سے اور کہیں اشاروں کنایوں سے لیکن مفسرین نے ان کو مسخ کرکے، ان کی غلط تشریحات اپنا کر، جانب دارانہ تفسیریں تحریر کی ہیں ۔“ (امینہ سے انٹرویو، مارچ 2002ء) امینہ ودود کے ان اقتباسات سے اس کے منحرف خیالات اور جدید تہذیب سے مرعوبیت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ اس کی نظر میں قرآن کی کوئی تفسیر انصاف پر مبنی نہیں ہے نیز اسلامی معاشروں میں چلے آنے والے عورت کے کردار سے بھی وہ مطمئن نہیں بلکہ وہ مغربی عورت کی طرح مسلم عورت کو بھی کارزار زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ لانا چاہتی ہے۔ پس منظر اور مقاصد امامت کے اس واقعہ کا پس منظر خالصتاً سیاسی ہے جو عالمی سطح پر جاری اس بحث سے ملتا ہے جس میں تہذیبی میدانوں میں عورت کے کردار کو بڑھانے کی کوششیں کئی سالوں سے جاری ہیں ۔ جدید تحریک ِنسواں کے پیش نظرعورت کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکالنے اور اسے شمع محفل بنانے پر ہی اکتفا کرنا نہیں بلکہ اسے مردوں پر بھی بالا دستی عطا کرنا ہے۔ دوسری طرف اس واقعہ کا پس منظر اسلام کو درپیش عالمی چیلنجز سے بھی ملتا ہے جس میں ’تہذیبوں کا تصادم‘ جیسے نظریات پیش کئے گئے ہیں اور اسلام کو روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا سبق دینے کی کوششیں جاری ہیں ۔مسلمانوں کو سیاسی سطح پر مغلوب کرنے کے بعد ان کی طر ف سے جس ردعمل کا اُنہیں اندیشہ رہتا ہے، اس میں دینی تحریکوں کا کردار بہت نمایاں ہوتاہے۔ مزید برآں اگر مسلمانوں کی دینی اساسات کو طعنہ زنی اور ان کی عبادات کو تمسخر کا نشانہ بنا دیا جائے تو اسلام بطورِ دین متاثر ہوتا اور بے دینی کو راہ ملتی ہے۔ موجودہ واقعے میں کامل ترین دین ’شریعت ِمحمدیہ‘کو نشانہ بنا کر دیگر ا لہامی شرائع و ادیان پر