کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 4
خود کو مسلمان ظاہر کرنے والی عورت اسریٰ نعمانی کے اسلامی احکامات کی پیروی کا یہ عالم ہے کہ وہ برملا کہتی ہے کہ ایک عورت کو ایک مرد کے ساتھ گلے ملنے میں کوئی ممانعت نہیں ، اجنبی مرد و زن کا ملنا ایسا ہی ہے جیسے اس کا بھائی اسے گلے ملتا ہے۔ خطبہ جمعہ اور امامت کرانے کے ڈرامے کے بعد اس نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ”ہم اسلام کواکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں گے اور خواب کو حقیقت میں بدلیں گے۔“
(کالم ’نیا فتنہ‘، روزنامہ انصاف: 5/ اپریل )
خاتون کالم نگار محترمہ طیبہ ضیااپنے کالم ’عورت کی امامت‘ میں لکھتی ہیں :
”اسریٰ نعمانی ’عورت اور اسلام‘ کے نام سے ایک کتاب کی مصنفہ ہے۔ اس کی دوسری کتاب جنس پرستی کے بارے میں ہے جس کا لب ِلباب یہ ہے کہ مرد وعورت بے لباس رہیں تو جنسی تفریق مٹ جاتی ہے اور ہندوستان میں جوگیوں اور سادھوں کی تربیت میں وہ اس مفروضہ کی پریکٹس بھی کرتی رہی ہے۔بقول اس کے وہ ایک ناجائز بچے کی ماں ہے جس کا نام اس نے اپنے دادا کے نام پر شبلی رکھا ہے۔ اپنے بیٹے کو گود میں اُٹھائے پھرتی ہے اور فخریہ واعلانیہ اپنے اس فعل کو بھی اسلام کی آزادی ہی قرار دیتی ہے۔
ان نفسیاتی بیمار عورتوں میں ایک بے نظیر بھٹو کی قریبی دوست شمع حیدر بھی مردوں کے شانے سے شانہ ملائے کھڑی تھی۔ بے نظیر جب بھی امریکہ آتی ہیں ، ہم نوالہ وہم پیالہ اور اور اسلام سے بعد رکھنے والے اپنی اس دوست شمع حیدرکے ہاں ہی قیام کرتی ہیں ۔“
٭ سیاہ فام افریقی نژاد ڈاکٹر امینہ ودود پاکستان میں تو زیادہ متعارف نہیں لیکن اسلام اور خواتین کے بارے میں اپنے منحرف کردار کی بنا پر عالمی میڈیا میں کافی شہرت رکھتی ہے۔ اسلامیات کی پروفیسر ہونے کے ناطے اسلام کی کوئی خدمت انجام دینے کی بجائے وہ اسلام کے بارے میں آئے روز نئے تصورات پیش کرتی رہتی ہے۔ جمعہ کے خطبہ کے آغاز میں اس نے کہا کہ
”اس طرح کے اجتماعات کے ذریعے ہم (خواتین) اسلام میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی طرف پیش قدمی کریں گی، کیونکہ امامت اسلامی عبادات کا اہم منصب ہے۔ہم محراب ومنبر کو مردوں کے قبضے سے چھڑا کر اسلام کی خدمت کریں گے۔“ (تعمیر افکار: مئی 2005ء، ص 39)