کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 25
ہے کہ ان کی امامت میں مرد نہیں ہوتے تھے، صرف عورتیں ہوتی تھیں ۔ لیکن چونکہ مضمون نگار کے پیش نظر تو حدیث ِاُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا سے مردوں اور عورتوں کی مشترکہ امامت کا اثبات ہے، اس لئے اس نے پہلے تو ترجمے میں یہ تصرف کیا کہ ”وہ اپنی عورتوں کی امامت کرے۔“ کے بجائے ترجمہ کیا ہے: ”اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں ۔“ حالانکہ یہ ترجمہ اس وقت ہوسکتا تھا، جب اس میں کانت کا لفظ ہوتا یعنی وكانت تؤم النساء۔یہ غلط ترجمہ اس لئے کیا کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا حصہ شمار نہ ہونے دیا جائے، حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہی کا ایک حصہ ہے۔ پھر اس غلط ترجمے کے ردّے پر دوسرا ردّہ یہ چڑھایا، مضمون نگار لکھتا ہے : ”اس روایت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھی۔ یہ دارقطنی کے اپنے الفاظ ہیں ، حدیث کے الفاظ نہیں ۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے، سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ اضافہ نہیں ۔ اس لئے اس اضافے کو بطورِ دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔“ (اشراق، لاہور: مئی 2005ء ، ص 38،39) یعنی مسئلہ زیر بحث میں جو الفاظ نص قطعی کی حیثیت رکھتے ہیں ، پہلے اس کا ترجمہ غلط کیا، تاکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے الگ باور کرایا جاسکے، پھر اس پر دوسرا ردّہ یہ چڑھایا کہ یہ”دارقطنی کے اپنے الفاظ ہیں ، حدیث کے نہیں ۔“ تیسرا ردّہ یہ چڑھایا کہ ”یہ ان کی اپنی رائے ہے۔“ چوتھا ردّہ کہ یہ ”اضافہ ہے جو دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ہے۔“ اور پھر ٹیپ کا بند، جو اصل مقصود ہے : ”اس لئے اس اضافے کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔“ (حوالہ مذکور) سبحان اللہ ، ماشاء اللہ! کیا خوب استدلال ہے، سب کچھ اپنی طرف سے۔ پہلے اپنے ذہن میں ایک نظریہ قائم کیا کہ عورت کا مردوں کی امامت کرنا جائز ہونا چاہئے۔ پھر جن الفاظ سے اس نظریے کی بیخ کنی ہوتی تھی، ان کا ترجمہ غلط کیا اور انہیں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے سے انکار کردیا، اور ان کو بلا دلیل امام دارقطنی کا اضافہ قرار دے کر اسے مسترد کردیا اور قطعی اعلان کردیا کہ اس اضافے کو بطورِ دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ یہ سارے دعوے غلط اور یکسر بے بنیاد ہیں ۔ ان الفاظ کا وہی ترجمہ صحیح ہے جو ہم نے کیا ہے کیونکہ یہی دیگر احادیث مبارکہ اورعربی