کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 24
ضعیف روایت ان کے مفروضوں کو سہارا دینے والی ہو تو وہ مقبول۔ حتیٰ کہ حدیث سے مطلب برآری کی یہ لے یہاں تک بڑھتی ہے کہ کسی حدیث کے ایک جز سے اگر ان کا مقصد پورا ہوتا ہے تو وہ تو صحیح قرار پاتا ہے اور اسی حدیث کا دوسرا جز اگر ان کے مقصد سے ہم آہنگ نہیں ہوتا، تو وہ غلط قرارپاتا ہے، یا پھر اس جز کی کوئی مضحکہ خیر تاویل کرکے اسے بھی اپنے مطلب کا بنانے کی سعی کی جاتی ہے۔ اسی ذہنی تحفظ یا مطلب برآری کا ایک عجیب مظاہرہ ’اشراق‘ کے مضمون نگار نے بھی کیا ہے۔ دیکھئے سنن دارقطنی کی روایت کے الفاظ أن تؤم نساء ہا محدثین کے طریقے کے مطابق، اس روایت کے دوسرے الفاظ (أهل دارها وغیرھ) کے مفہوم کو متعین اور واضح کردیتے ہیں ۔ لیکن چونکہ مقصود حدیث سے استفادہ اور اس سے ثابت شدہ بات کو ماننا نہیں ہے، بلکہ توڑ مروڑ کر حدیث سے اپنی بات کا اثبات کرنا ہے۔ اس لئے دارقطنی کی اس روایت کو ’اشراق‘ کے مضمون نگار نے بھی پیش کیا ہے۔ لیکن اس نے ترجمے اور مطلب بیان کرنے میں جو گھپلے کئے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں ۔ پہلے ترجمہ دیکھیں : ”اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے اجازت دے دی تھی کہ اس کے لئے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں ۔“ (اشراق: مئی 12005ء، ص38) ترجمے کے گھپلے کو سمجھنے کے لئے حدیث کے اصل عربی الفاظ کا سامنے ہونا ضروری ہے ۔ الفاظ یہ ہیں : أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أَذِن لها أن يؤذنَ ويقامَ وتؤمَّ نساء ها (الدارقطني: باب في ذكر الجماعة وأهلها وصفة الامام،حدیث 1069) اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین حکموں کا بیان ہے : (1) اس کے لئے اذان دی جائے (2) اقامت کہی جائے اور یہ کہ (3) وہ اپنی عورتوں کی امامت کرے۔ یہ اس کا صحیح ترجمہ بھی ہے اور جس سے صحیح مطلب بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ان کو اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنی عورتوں کی امامت کرلیا کریں ۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی