کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 23
الموسوعة الفقہية (کویت) میں بھی یہ روایت أن تؤم نساء أهل دارها کے الفاظ کے ساتھ درج ہے، جس کے لئے انہوں نے سنن ابوداود (1/397) کے اس نسخے کا حوالہ دیا ہے جو عزت عبیددعاس کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ (دیکھئے: موسوعہ مذکورہ: 6/204)
سنن دارقطنی کے یہ الفاظ أن تؤم نساء ها اور اور سنن ابوداود کے ایک نسخے کے الفاظ أن تؤم نساء أهل دارها سے، دوسرے طرق کے الفاظ أن تؤم أهل دارها کا مفہوم واضح اور متعین ہوجاتا ہے کہ دار کومحلے یا حویلی کے معنی میں بھی لیا جائے، تب بھی یہی معنی ہوں گے کہ وہ محلے یا حویلی کی عورتوں کی امامت کرائے۔ اس میں مردوں کی شمولیت کا مفہوم تو پھر بھی شامل نہیں ہوگا۔
اور یہ مسئلہ کہ عورت، عورتوں کی امامت کرے، اس کو سوائے چندایک فقہا کے، سب تسلیم کرتے ہیں ، اس لئے کہ اس کا ثبوت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا صحابیات سے ملتا ہے، تاہم اس صورت میں عورت ، مرد امام کی طرح، صف کے آگے اکیلی کھڑی نہیں ہوگی بلکہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔
گمراہی اور کج رَوی کی بنیاد، محدثانہ نقطہ نظر سے انحراف ہے
بہرحال حدیث سے استدلال کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو محدثین کا طریقہ ہے (جو استدلال کا صحیح اور واحد طریقہ بھی ہے) تو اس حدیث ِاُم ورقہ رضی اللہ عنہا سے قطعاً اس بات کا اثبات نہیں ہوتا جسے بے طرح ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔دراصل جس گروہ کے بھی کچھ ذہنی تحفظات ہوتے ہیں ، وہ اپنے ذ ہنی تحفظات ہی کی روشنی میں حدیث سے اخذ و استفادہ کرتا ہے۔ وہ محدثین کی طرح حدیث کو محض حدیث کے طور پر نہیں مانتا، یعنی اس سے جس مسئلے کا اثبات ہوتا ہے، اگر وہ اس کے ذہنی تحفظات سے متصادم ہوتی ہے تو وہ اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے سارے گروہ نہایت قوی اور صحیح ترین روایات کو تو مسترد کردیتے ہیں اور نہایت گری پڑی روایت کو اپنا لیتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ محض اس لئے کہ حدیث ِرسول کو ماننا ان کے پیش نظر نہیں ہوتا بلکہ ان کے اپنے مخصوص مفادات اور ذ ہنی تحفظات ہوتے ہیں ۔ صحیح السند اور قوی روایت اگر ان کے مفروضوں کا ساتھ نہیں دیتی تو وہ مردود، اور کوئی