کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 21
کررہے ہیں ۔“ (بحوالہ اخبارِ مذکور: ’زندگی‘ 27/ مارچ 2005ء)
عائشہ سروری کی بیان کردہ اس تفصیل سے وہ تکون سامنے آجاتی ہے جو اس سازش کی روحِ رواں ہے۔ اور وہ ہیں : ایک ناجائزبچے کی بدکارماں ۔ دوسری خود ڈاکٹر امینہ ودود (امامن اور خطیبن) اور تیسری امریکی حکومت۔ اور اب خود امامن اور خطیبن کا بیان ملاحظہ فرمائیں جو اس نے جمعے کے خطبے میں دیا۔ اس نے کہا :
”قرآن نے عورت اور مرد کو برابر کے حقوق عنایت فرمائے ہیں ، لیکن مسلمان مردوں نے اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کردیا ہے اور عورت کو اس کے حقوق سے محروم کررکھا ہے۔ یہ مرد عورت کو محض جنسی تفریح سمجھتے ہیں ۔“ (اخبارِ مذکور)
اس پس منظر کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ حضرت اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث کو جو ایک استثنائی صورت کی حامل ہے، امریکہ میں پیش آنے والے واقعے کے جواز میں پیش کرنا، قیاس مع الفارق ہے۔ اس واقعے کے اداکار و ہدایت کار تو مسجدوں میں مخلوط نماز کو رواج دے کر مغرب کے نظریہٴ مساواتِ مردوزن کو، مسلمان معاشروں ہی میں نہیں ، بلکہ مسجدوں کے اندر بھی اسے نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔
کیا فقیہان ’اشراق‘ جو اِن باغیانِ اسلام کی اس مذموم حرکت کوسند ِجواز مہیا کرنے کے لئے کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدانِ صحافت میں اُترآئے ہیں ، اسی مساوات کے حامی ہیں جس کے قائل امامت ِزن کے حامی یا اس کے بانی ہیں ؟ اگر وہ اس مغربی مساوات کے قائل ہیں ، پھرتوان کی ہم نوائی قابل فہم ہے۔ اور اگر وہ اس مساوات کے قائل نہیں ہیں ، تو پھر ان کی ہم نوائی کیوں ؟ اور اس کی حمایت میں یہ سرگرمی کیوں ؟ (اس کے جواب کے ہم منتظر رہیں گے!)
(2) دوسرا قابل غور پہلو حدیث ِزیر بحث میں یہ ہے کہ اس کے کسی بھی لفظ سے اس بات کا اثبات نہیں ہوتا کہ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے کوئی مرد بھی نماز پڑھتا تھا۔ محض اس بات سے کہ ایک بہت بوڑھا شخص (شیخ کبیر) ان کے لئے اذان کہتا تھا، یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نماز بھی حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پڑھتا ہوگا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے یہ احتمال پیش کیا ہے، لیکن محض احتمال سے تو استدلال ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک دوسرا احتمال یہ بھی تو ہے کہ اذان